اس سورت کی سب سے پہلی آیت ہی یہ بتارہی ہے کہ اس کا نزول معراج مبارک کے واقعے کے بعد ہوا ہے اگرچہ معراج کے واقعے کی ٹھیک ٹھیک تاریخ یقینی طور پر متعین کرنا مشکل ہے لیکن زیادہ تر روایات کا رجحان ا س طرف ہے کہ یہ عظیم واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے دس سال بعد اور ہجرت سے تین سال پہلے پیش آیا تھا اس وقت تک اسلام کی دعوت کا پیغام نہ صرف عرب کے بت پرستوں تک بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں تک بھی پہنچ چکا تھا اس سورت میں معراج کے غیر معمولی واقعے کا حوالہ دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کردیاگیا ہے۔
*اس کے بعد بنو اسرائیل کے واقعے کا ذکر فرمایاگیا ہے کہ کس طرح انہیں دو مرتبہ اللہ کی نافرمانی کی پاداش میں ذلت و رسوائی اور دشمن کے ہاتھوں بربادی کاسامنا کرنا پڑا اس طرح مشرکین عرب کو سبق دیاگیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی مخالفت سے باز آجائیں ورنہ ان کو بھی اسی قسم کے انجام سے سابقہ پیش آسکتا ہے ،کیونکہ اس وقت قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اعتدال کے ساتھ سیدھے راستے کی طرف ہدایت کررہی ہے (آیت نمبر:۹)
* پھر آیت نمبر۲۲ سے ۲۸ تک مسلمانوں کو ان کے دینی ،معاشرتی او راخلاقی طرز عمل کے بارے میں نہایت اہم ہدایت دی گئی ہیں او رمشرکین کے نامعقول او رمعاندانہ طرز عمل کی مذمت کرکے ان کے اعتراضات کا جواب دیاگیا ہے او رمسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرتے رہیں۔
چونکہ سورت کے شروع میں بنو اسرائیل کے ساتھ پیش آنے والے دو اہم واقعات کا تذکرہ کیاگیا ہے ،اس لئے سورت کا نام سورۂ بنی اسرائیل ہے او راس کا دوسرا نام سورۃ الاسراء بھی ہے، اسراء سفرمعراج کو اور خاص طور پر ا س سفر کے اس حصے کہا جاتا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے جایا گیا سورت کا آغاز ہی چونکہ اس معجزانہ سفر کے تذکرے سے ہوا ہے اس لئے اس کو سورۃ الاسراء بھی کہا جاتا ہے۔