یہ سورت مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی تھی جب مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے ہاتھوں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھانی پڑرہی تھیں،بعض مسلمان ان تکلیفوں کی شدت سے بعض اوقات پریشان ہوتے ،اور ان کی ہمت ٹوٹنے لگتی تھی،اس سورت میں اللہ تعالی نے ایسے مسلمانوں کو بڑی قیمتی ہدایات عطا فرمائی ہیں
*اول تو سورت کے بالکل شروع میں فرمایاگیا ہے کہ اللہ تعالی نے مؤمنوں کے لئے جنت تیار فرمائی ہے ،وہ اتنی سستی نہیں ہے کہ کسی تکلیف کے بغیر حاصل ہوجائے ،ایمان لانے کے بعد انسان کو مختلف آزمائشوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے
*دوسرے یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ یہ ساری تکلیفیں عارضی نوعیت کی ہیں،اور آخر کار ایک وقت آنے والا ہے جب ظالموں کو ظلم کرنے کی طاقت نہیں رہےگی ،اور غلبہ اسلا م اور مسلمانوں ہی کو حاصل ہوگا، اس پس منظر میں اللہ تعالی نے اس سورت میں پچھلے کئی انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات سنائے ہیں ،جن میں سے ہر واقعے میں یہی ہوا کہ شروع میں ایمان لانے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،لیکن آخر کار اللہ تعالی نے ظالموں کو برباد کیا،اور مظلوم مؤمنوں کو فتح عطا فرمائی
*مکی زندگی کے اسی زمانے میں کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ اولاد مسلمان ہوگئی اور والدین کفر پر بضد رہے او راپنی اولاد کو واپس کفر اختیار کرنے پر مجبور کرنے لگے ،ان کا کہنا تھا کہ والدین ہونے کی وجہ سے ان کی اولاد کو دین ومذہب کے معاملے میں بھی ان کی فرمان برداری کرنی چاہئیے ، اس سورت کی آیت نمبر:۸ میں اللہ تعالی نے اس سلسلے میں یہ معتدل اور برحق اصول بیان فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ انسان کا فرض ہے ؛لیکن اگر وہ کفر یا اللہ تعالی کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت جائز نہیں ہے
* جن مسلمانوں کے لئے صرف مکہ مکرمہ کے کافروں کا ظلم وستم ناقابل برداشت ہورہا تھا ان کو اس سوت میں نہ صرف اجازت بلکہ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ اطمینان کے ساتھ اپنے دین پر عمل کرسکیں
*بعض کافر لوگ مسلمانوں پر زور دیتے تھے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو،اور اس کے نتیجے میں تم پر اللہ تعالی کی طرف سے کوئی سزا آئی تو تمہاری طرف سے ہم اسے بھگت لیں گے ،اس سورت کی آیات :۱۲ و ۱۳ میں اس لغو پیشکش کی حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ آخرت میں کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا
*اس کے علاوہ توحید ،رسالت اور آخرت کے دلائل بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، او راس سلسلے میں جو اعتراضات کافروں کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے ،ان کا جواب بھی دیاگیا ہے
*عنکبوت عربی میں مکڑی کو کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر:۴۱ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مشرکین کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے مکڑی کے جالے پر بھروسہ کررکھا ہو، اس لئے اس سورت کا نام سورۂ عنکبوت ہے۔
*اول تو سورت کے بالکل شروع میں فرمایاگیا ہے کہ اللہ تعالی نے مؤمنوں کے لئے جنت تیار فرمائی ہے ،وہ اتنی سستی نہیں ہے کہ کسی تکلیف کے بغیر حاصل ہوجائے ،ایمان لانے کے بعد انسان کو مختلف آزمائشوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے
*دوسرے یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ یہ ساری تکلیفیں عارضی نوعیت کی ہیں،اور آخر کار ایک وقت آنے والا ہے جب ظالموں کو ظلم کرنے کی طاقت نہیں رہےگی ،اور غلبہ اسلا م اور مسلمانوں ہی کو حاصل ہوگا، اس پس منظر میں اللہ تعالی نے اس سورت میں پچھلے کئی انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات سنائے ہیں ،جن میں سے ہر واقعے میں یہی ہوا کہ شروع میں ایمان لانے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،لیکن آخر کار اللہ تعالی نے ظالموں کو برباد کیا،اور مظلوم مؤمنوں کو فتح عطا فرمائی
*مکی زندگی کے اسی زمانے میں کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ اولاد مسلمان ہوگئی اور والدین کفر پر بضد رہے او راپنی اولاد کو واپس کفر اختیار کرنے پر مجبور کرنے لگے ،ان کا کہنا تھا کہ والدین ہونے کی وجہ سے ان کی اولاد کو دین ومذہب کے معاملے میں بھی ان کی فرمان برداری کرنی چاہئیے ، اس سورت کی آیت نمبر:۸ میں اللہ تعالی نے اس سلسلے میں یہ معتدل اور برحق اصول بیان فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ انسان کا فرض ہے ؛لیکن اگر وہ کفر یا اللہ تعالی کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت جائز نہیں ہے
* جن مسلمانوں کے لئے صرف مکہ مکرمہ کے کافروں کا ظلم وستم ناقابل برداشت ہورہا تھا ان کو اس سوت میں نہ صرف اجازت بلکہ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ اطمینان کے ساتھ اپنے دین پر عمل کرسکیں
*بعض کافر لوگ مسلمانوں پر زور دیتے تھے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو،اور اس کے نتیجے میں تم پر اللہ تعالی کی طرف سے کوئی سزا آئی تو تمہاری طرف سے ہم اسے بھگت لیں گے ،اس سورت کی آیات :۱۲ و ۱۳ میں اس لغو پیشکش کی حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ آخرت میں کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا
*اس کے علاوہ توحید ،رسالت اور آخرت کے دلائل بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، او راس سلسلے میں جو اعتراضات کافروں کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے ،ان کا جواب بھی دیاگیا ہے
*عنکبوت عربی میں مکڑی کو کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر:۴۱ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مشرکین کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے مکڑی کے جالے پر بھروسہ کررکھا ہو، اس لئے اس سورت کا نام سورۂ عنکبوت ہے۔