عمرانؔ حضرت مریمؓ کے والد کا نام ہے،اور آل عمران کا مطلب ہے عمران کا خاندان- اس سورت کی آیات ۳۳ تا ۳۷ میں اس خاندان کا ذکر آیا ہے، اس لئے اس سورت کا نام سورۂ آل عمران ہے۔
اس سورت کے بیشتر حصے اس دور میں نازل ہوئے ہیں جب مسلمان مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے تھے، مگر یہاں بھی کفار کے ہاتھوں انہیں بہت سی مشکلات درپیش تھیں
* سب سے پہلے غزوۂ بدر پیش آیا جس میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو غیر معمولی فتح عطا فرمائی اور کفار قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے
* اس شکست کا بدلہ لینے کے لئے اگلے سال انہوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا اور غزوۂ احد پیش آیا جس میں مسلمانوں کو عارضی پسپائی بھی اختیار کرنی پڑی۔ ان دونوں غزوات کا ذکر اس سورت میں آیا ہے اوران سے متعلق مسائل پر قیمتی ہدایات عطا فرمائی گئی ہیں۔
مدینہ منورہ اوراس کے اطراف میں یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے، سورۂ بقرہ میں ان کے عقائد واعمال کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر ہوچکا ہے اور ضمناً عیسائیوں کا بھی تذکرہ آیا تھا، سورۂ آل عمران میں اصل روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہے اور ضمناً یہودیوں کا بھی تذکرہ آیا ہے ۔
* عرب کے علاقے نجران میں عیسائی بڑی تعداد میں آباد تھے، ان کا ایک وفد آنحضرتﷺ کے پاس آیا تھا ،سورہ آل عمران کا ابتدائی تقریباً آدھا حصہ انہی کے دلائل کے جواب اور حضرت مسیح علیہ السلام کی صحیح حیثیت میں صرف ہوا ہے
* اس سورت میں زکوۃ سود اورجہاد سے متعلق احکام بھی عطا فرمائے گئے ہیں اورسورت کے آخر میں دعوت دی گئی ہے کہ اس کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت کی نشانیوں پر انسان کو غور کرکے اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایمان لانا چاہئے اور ہر حاجت کے لئے اسی کو پکارنا چاہئے