(تیارکردہ: مدرسہ فاطمہ زہراء للبنات والبنین، گودھرا کالونی نیوکراچی)
وہ طلبہ وطالبات جو ناظرہ قرآن کریم مکمل کرچکے ہیں اب سال دو سال اعادہ کریں گے،ان کے لیے یہ کورس تجویز کیا گیا ہے۔
مقاصد اور عزائم
(1) تجوید بہتر ہوجائے ۔
(2) بچوں کے معصوم ذہنوں میں ایمان اور دین کی بنیادی باتیں پیوست ہوجائیں؛ کیونکہ بچپن میں جو ذہن بن جاتا ہے اس کے اثرات مرتے دم تک رہتے ہیں۔
(3) آج کے دور میں اسلام اور الحاد کی جنگ زوروں پر ہے۔دجال بھی الحاد کی دعوت دے گا۔
ملحدین کی فکری یلغار سے بچاؤ کا ایک طریقہ یہی ہے کہ بچوں کے ذہن میں پہلے سے ہی دینی عقائد راسخ کردیے جائیں؛تاکہ بعد میں کوئی بھی ماحول ان کے عقائد خراب نہ کرسکے۔
(4) نبی کریم ﷺ کی پرنور دعائیں ،طہارت،نمازاور دین کےدیگر بنیادی مسائل ذہن نشین کرادیے جائیں؛تاکہ عبادت کی روح یعنی دعا کی عادت بنے اور دین کا اتنا علم جو فرض کفایہ ہے وہ انہیں اسی دور میں حاصل ہوجائے۔
(5) بچوں کا وقت مزید قیمتی بنایا جائے۔
(6) بچوں کے اندرشروع سے دین اسلام اور اس کے متعلقات کا شوق وجذبہ پیدا ہو۔
نصاب اور اہداف
(1) تجوید(مشق)
(2) چالیس احادیث(حفظ)
(3) سودعائیں(حفظ)
(4) طہارت اور نمازکی ضروریات (حفظ)
(5) قرآن وحدیث اور سیرت پاک کی ضروری معلومات(مقابلوں کے ذریعے)
(6) تقریر وبیان(مشق اور مقابلوں کے ذریعے )
(7) عقائد ومسائل(مشق اور ذہن سازی کے ساتھ)
تجوید کی مشق بذریعہ بلیک بورڈ کروائی جائے۔
اس کے بعد کے تین اہداف حاصل کرنے کے لیے مفتی احمد صاحب کی کتاب “زادالمتقین” تجویز کی گئی ہے۔
ہدف نمبر 5 کی تیاری انتظامیہ کے ذمہ ہے۔جیسے سیرت النبی ﷺکے سوالات تیار کیے گئے ایسے ہی قرآن کریم اور حدیث شریف کے حوالے سے بھی سوالات تیار کیے جائیں گے اور وقتا فوقتا اس کے مقابلوں کا انعقاد کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ!
ہدف نمبر6 استاذ/معلمہ کی دل چسپی پر منحصر ہے۔
جبکہ ہدف نمبر7 کے لیے ایک کتاب” اچھی باتیں” تجویز کی گئی ہے۔اس کتاب کے چھ حصے ہیں:
پہلے حصے میں ( 12 )اسباق ہیں۔ان بارہ اسباق میں کلمہ طیبہ کی بہت آسان اوراچھے انداز میں تشریح کی گئی ہے۔ انداز قرآن کریم کا اختیار کیا ہے۔
دوسرے حصے میں (27) اسباق ہیں۔اس حصے میں انبیائے کرام اورنبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے حالات کا ذکر ہے کہ انہوں نے دین کی خاطر کس طرح تکالیف برداشت کیں۔
تیسرے باب میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں: ایک یہ کہ زندگی عبادت والی کیسے بنے؟ دوسری ،نماز کی ترغیب،اہمیت اور ضرورت ۔
چوتھے حصے میں طہارت اور نماز کے تمام مسائل بیان ہوئے۔ نماز میں دھیان کیسے پیدا کیا جائے ؟ یہ بھی بتایا گیا ہے۔
پانچویں حصے میں (16) اسباق ہیں۔ زکوۃ ، صدقات کی ترغیب،اہمیت اورفضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔
چھٹے باب میں (25) اسباق ہیں۔ روزے کے تمام مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔
طریقہ تعلیم
وقت کے چار حصے کرلیے جائیں:
(1) پہلے آدھے گھنٹے میں طلبہ وطالبات کو ٹھیر ٹھیر کر ،تجوید کے ساتھ آدھا پارہ پڑھنے کا پابند بنائیں۔
(2) دوسرے آدھے گھنٹے میں تجوید کی مشق کروائیں،تجوید کے قواعد بلیک بورڈ پر لکھوائے جائیں اور کاپی میں لکھنے کو کہا جائے۔ استاذ کی تجوید جتنی اچھی ہوگی طلبہ وطالبات کی بھی اتنی اچھی ہوگی، طلبہ کی کمزوری استاذ کی کمزوری ہے۔تجوید کی بہتری کے لیے بیت العلم سے شائع ہونے والی کتابوں کو مطالعے میں رکھا جائے۔یہ کتابیں مدرسے میں دستیاب ہیں۔
ایک گھنٹہ پورا ہوا۔
(3) تیسرے حصے میں کتاب”اچھی باتیں” سے سبق پڑھایا جائے۔
(4) آخری حصے میں “زادالمتقین” سے طے کردہ چیزیں مناسب رفتاراور بہترمنصوبہ بندی کے ساتھ حفظ کروائی جائیں۔
سبق پڑھانے کا سب سے بہتر طریقہ
کسی بھی کتاب کوبہترین طریقے سے پڑھانے کا طریقہ یہ ہے :
منصوبہ بندی کریں!
سال میں 360 دن ہوتے ہیں۔چھٹیاں نکال کر300 دن رہ جاتےہیں۔300دنوں میں آپ نے یہ نصاب پورا کرنا ہے۔اس کے لیے آپ ابھی سے منصوبہ بندی کریں کہ کس طرح سبق لے کر چلاجائے کہ سبق کی رفتار بھی مناسب ہو اور سال کے آخر میں نصاب کی تکمیل بھی ہوجائے۔
(ایک ہفتے کے اندر اندر نصاب کی منصوبہ بندی کرکے دفتر میں جمع کروادیں۔اگر سال کے شروع میں منصوبہ بندی نہ ہوسکی تو پورا سال بے ترتیب جائے گا۔)
مطالعہ کرکے پڑھائیں!
گھر سے سبق کا مطالعہ کرکے آئیں۔ ایک دوبار مطالعہ کرنے کے بعد پھر ذہن میں منصوبہ بنایا جائے کہ یہ سبق کس طرح آسان سے آسان کرکے پڑھایا جاسکتا ہے۔
شفقت ومحبت سے پڑھائیں!
محبت ، شفقت اور اخلاص سے سبق پڑھایا جائے۔ڈنڈے اور نفرت کے زور پر پڑھائی گئی چیز کا اثر وقتی ہوتا ہے جبکہ محبت اور شفقت سے پڑھائی گئی چیز کا اثر دیرپا۔
استاذ /معلمہ دین داری پیدا کریں!
استاذ کا ذہن جتنا اچھا اور صاف ہوگا، بچوں کا ذہن بھی وہ اتنا ہی صاف کرسکے گا۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ خود استاذ بھی تربیت والا ، دین دار ہو،نماز، ذکر اذکار اور دعاؤں کا اہتمام کرنے والا ہو، کوئی اخلاقی برائی اس کے اندر نہ ہو۔
خدانخواستہ استاذ کا ذہن ہی بےدینی والا ہے تو ایسا استاذ بچوں کو تباہ کردے گا۔
مشق دیں!
مشق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سوالات جن کا جواب ایک دو لفظ کا ہووہ لکھنے کےلیے دیے جاسکتے ہیں ،لیکن اگر سوالات طویل ہوں تو اس کے جواب زبانی حل کروادیے جائیں اور لکھنے کے لیے چار سے پانچ سوالات اپنی طرف سے دیے جائیں جن کا جواب ایک دو لفظ سے زیادہ کا نہ ہو۔
ٹیسٹ لیتے رہیں!
وقتا فوقتا ٹیسٹ لیتے رہنا چاہیے، اس سے پچھلا یاد رہتا ہے اورامتحانات کے موقعے پر زیادہ پریشانی نہیں ہوتی۔ٹیسٹ زبانی لینا بہتر ہوتا ہے۔ایک کاپی میں ٹیسٹ کاریکارڈ رکھنا بہت اچھی بات ہے۔
تربیتی کورسز میں حصہ لیتے رہیں!
بہترین استاذ وہ ہے جو خود کو ہمیشہ طالب علم اور علم وتربیت کا محتاج سمجھے۔اس لیے جب بھی تربیت اساتذہ کی نشست رکھی جائے یا آپ کا کوئی خیرخواہ کوئی اچھا مشورہ آپ کو د ے تو اسے خندہ پیشانی اور کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے! جساستاذ/ معلمہ کا رویہ ڈکٹیٹر کا ہوا وہ آخر کار تباہ ہوا۔