سوال: میری بہن پنج وقتہ نمازی ہے مگر رمضان میں تراویح پڑھنے میں سستی کرتی ہے ۔ اگر اس سے اصرار کریں تراویح پڑھنے کے لیے تو کہتی ہے: سنت نماز ہے، فرض تو نہیں۔
اب آپ رہنمائی فرما دیں کیا رمضان میں تراویح کو غیر ضروری یا سنت جان کر ترک کرسکتے ہیں؟ کیا ایسا کرنے سے وہ گناہ گار نہیں ہوگی؟
جواب:واضح رہے کہ نمازِ تراویح سنت مؤکدہ ہے۔ سنت مؤکدہ کا حکم یہ ہے کہ اگر عذر کی بنا پر کبھی کبھار چھوٹ جائے تو اس میں گناہ نہیں، تاہم سنن مؤکدہ کو بغیر عذر چھوڑنے کی عادت بنالینا، گناہ ہے۔
مذکورہ صورت میں اگرآپ کی بہن نے تراویح چھوڑنے کی عادت بنالی ہے اور صرف سنت ہونے کی وجہ سے ترک کررہی ہے تو انھیں فوراً اپنے اس عمل سے توبہ کرنا اور آئندہ تراویح کا اہتمام کرنا لازم ہے۔
————————————————
حوالہ جات:
1… رجل ترک سنن الصلوة ان لم ير السنن حقا فقد كفر ، لأنه تركها استخفافا ، وان رأها حقا فالصحيح انه ياثم ، لأنه جاء الوعيد بالترك ۔
( فتاوى هنديه: 1/ 112, البحر الرائق:1/ 49)
3… السنن المؤکدہ القريبة من الواجب التي يضلل تاركها ، لان تركها استخفاف بالدين. (فتاوى شاميه:1/ 230)
4۔۔۔ لكن في” التلويح ” ترك السنة المؤكدة قريب من الحرام يستحق حرمان الشفاعة؛ لقوله عليه السلام: ” من ترك سنتي لم ينل شفاعتي”اھ۔۔۔وفي
“التحرير” ان تاركها بستوجب التضليل واللوم اه….والمراد الترك بلا عذر على سبيل الاصرار كما في ” شرح التحرير” لابن امير الحاج۔
( فتاوى شاميه:232/1)
والله اعلم بالصواب