سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام عليكم ورحمة الله! کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری والدہ کا انتقال ہوا ۔ورثاء میں ہم دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں ۔والدہ کبھی بڑے بھائی کے گھر میں رہتی تھی اور کبھی چھوٹے بھائی کے گھر میں ۔ بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی امی کے لئے زیور کپڑے وغیرہ بناتے رہتے تھے ۔امی ہم سب سے یہی کہتی تھی کہ یہ میں استعمال کر رہی ہوں مگر میرے مرنے کے بعد جو بڑے نے بنایا ہے اس کے حوالے کر دینا جو چھوٹے نے بنایا ہے اس کے حوالے کر دینا ۔والدہ کی وصیت میں لکھا ہوا ہے کہ جو میرا زیور ہے اس کو شرعی طور پر تقسیم کر لینا ۔ پوچھنا یہ ہے کہ جو زیور اور جو سامان والدہ کا اپنا تھا صرف وہی تقسیم کیا جائے گا یا جو بھائیوں نے بنایا تھا وہ بھی تقسیم ہوگا ۔؟؟؟؟ جبکہ والدہ اپنی زندگی میں کہا کرتی تھی کے جو کپڑے زیور بڑے نے بنائے ہیں اس کو واپس کردینا اور جو چھوٹے نے بنائے ہیں وہ اس کو واپس کردینا۔ اور بقیہ سامان کے بارے میں بھی بتا دیں ۔جیسے بڑے بھائی نے امی کے لئے بیڈ اور الماری رکھی ہوئی تھی ۔اور چھوٹے بھائی نے بھی اسی طرح کمرہ سیٹ کیا ہوا تھا ۔وہ بھائیوں کی ملکیت میں ہو گا یا امی کی ملکیت میں شمار ہوگا ۔بھائی کہتے ہیں ہم نے یہ نہیں سوچا تھا کبھی کہ یہ چیز ہم نے امی کو عاریتاً دی ہے یا مالک بنایا ہے.
والسلام
تنقیح:
۱)کیا والدہ کے والدین حیات ہیں؟
۲)بیٹوں کی نیت جاننا ضروری ہے کہ جب والدہ کو زیور دیا تھا اس وقت کیا نیت تھی۔ ان کو تحفے کے طور پر دیا تھا یا استعمال کے لیے دیا تھا؟؟
جواب
۱) والدین حیات نہیں۔
۲) ہم نے زیور اپنی والدہ کو تحفہ دیے تھے ۔
الجواب باسم ملهم الصواب
مذکورہ صورت میں مرحومہ نے انتقال کے وقت اپنی ملكیت میں جو كچھ منقولہ غیرمنقولہ مال و جائیداد، دكان مكان، نقدی ،سونا، چاندی غرض ہر قسم كا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے، وہ سب مرحومہ كا تركہ ہے۔
1⃣ اس میں سے سب سے پہلے مرحومہ كے كفن دفن كا متوسط خرچہ نكالا جائے، اگر كسی نے یہ خرچہ بطور احسان ادا كردیا ہے تو پھر تركے سے نكالنے كی ضرورت نہیں۔
2⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحومہ كے ذمے كسی كا كوئی قرض واجب الادا ہوتو اُس كو ادا كیا جائے۔
3⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحومہ نے كسی غیر وارث كے حق میں كوئی جائز وصیت كی ہو توبقایا تركے كے ایک تہائی حصے كی حد تک اُس پر عمل كیا جائے۔
4️⃣اُس كے بعد جو تركہ بچے اُس كے 6 برابر حصے کیے جائیں گے۔
🔵 جس میں سے :
🔹فی بیٹی 1 اور
🔹فی بیٹا 2
حصے ملیں گے۔
🔵فی صد کے لحاظ سے:
🔹فی بیٹی کو %16.66
🔹فی بھائی کو %33.33
دیا جائے گا۔
سوال مذکور میں بیٹوں نے والدہ کو جو کچھ تحفہ کے طور پر دیا تھا جیسے کپڑے، زیور اور سامان وغیرہ وہ والدہ کی میراث میں شامل کر کے تقسیم کیے جائیں گے۔ والدہ کا یہ کہنا کہ مرنے کے بعد بڑے یا چھوٹے بیٹے کو دینا ، اس پر اس وقت عمل ہو سکتا ہے جب سارے عاقل و بالغ ورثاء اس وصیت پر راضی ہوں اور دلی خوشی سے اس وصیت کو تسلیم کریں۔
1) “ يوصيكم الله في اولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين “۔ (سورة النساء،11)
2) لاتجوز الوصیۃ لوارث، إلا إن شاء الورثۃ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، باب نسخ الوصیۃ للوالدین والأقربین الوارثین، دار الفکر 356/9، رقم: 12797)
فقط