تقسیم میراث

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

السلام عليكم ورحمة الله! کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک آدمی کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے،اس کے دو فلیٹ اور دو town houses ہیں ،فلیٹ بیٹوں کے نام ہیں جبکہ town houses اس آدمی کے خود کے نام ہے۔

اس شخص نے ایک کاغذ پر اپنی زندگی میں لکھ دیا تھا کہ town houses بھی بیٹوں کے ہیں ۔

اب اس کا انتقال ہوگیا ہے،گھروں کو چھوڑ کر باقی shares n jewelry میں سے بیٹی کا حصہ دے دیا

کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟

تنقیح: 

۱)کیا میت کی بیوی اور والدین زندہ ہیں؟

۲)دونوں فلیٹ صرف بیٹوں کے نام ہیں یا ان کی ملکیت میں دے دیے تھے۔

۳) ٹاؤن ہاؤسز کے بارے میں صرف لکھا تھا کہ یہ بیٹوں کے ہیں یا قبضہ بھی دیا تھا۔

جواب: 

۱)میت کی بیوی اور والدین زندہ نہیں۔ 

۲)دونوں فلیٹ بیٹوں کی ملکیت میں ہیں۔ 

۳) بیٹے town houses میں رہتے ہیں،ایک گھر چھوٹے بیٹے کے نام ہے،دوسرا میت نے اپنے نام رکھا تھا اور بڑے بیٹے کے ساتھ ہی رہتا تھا مگر میت یہ بتا چکا تھا ایک پرچی پر کہ یہ گھر بڑے بیٹے کا ہی ہے۔ 

والسلام

سائلہ کا نام : امة الله

پتا: ا،ب،ج

الجواب باسم ملهم الصواب

مذکورہ صورت میں مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملكیت میں جو كچھ منقولہ غیرمنقولہ مال و جائیداد، دكان مكان، نقدی ،سونا، چاندی غرض ہر قسم كا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے، وہ سب مرحوم كا تركہ ہے۔

1۔ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم كے كفن دفن كا متوسط خرچہ نكالا جائے، اگر كسی نے یہ خرچہ بطور احسان ادا كردیا ہے تو پھر تركے سے نكالنے كی ضرورت نہیں۔

2۔ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم كے ذمے كسی كا كوئی قرض واجب الادا ہوتو اُس كو ادا كیا جائے۔ 

3۔ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم نے كسی غیر وارث كے حق میں كوئی جائز وصیت كی ہو توبقایا تركے كے ایک تہائی حصے كی حد تک اُس پر عمل كیا جائے۔

4۔مسئلہ ھذا میں میت نے بیٹوں کو اپنی زندگی میں ہی فلیٹوں پر قبضہ دے دیا تھا تو یہ ہبہ تام ہو گیا دونوں فلیٹ مرنے والے کی ملکیت سے نکل گئے بیٹوں کی ملکیت میں چلے گئے۔ اب یہ مرنے والے کی میراث میں شامل نہیں ہوں گے۔ دونوں ٹاؤن ہاؤسز بھی میت نے اپنی زندگی میں ہی بیٹوں کو ہبہ کر دیا اور ساتھ قبضہ بھی دے دیا تھا تو وہ بھی میت کی میراث میں شامل نہ ہوں گے۔ تاہم شریعت کا حکم اولاد کو ہبہ کرنے میں، برابری کرنے کا ہے لیکن اگر کسی نے برابر ی نہیں کی تب بھی ہبہ مکمل ہو جائے گا۔ 

(واضح رہے کہ والد جس بیٹے کے ساتھ رہتے تھے اگر والد کا خرچہ وہ بیٹا برداشت کرتا تھا تو زیر کفالت ہونے کی وجہ سے وہ اس بیٹے کے تابع ہوگئے اور یوں اسی گھر میں والد کی رہائش ہبہ کی صحت سے مانع نہیں رہی۔)

5۔اُس كے بعد جو تركہ بچے اُس كے 5 برابر حصے کیے جائیں گے۔

 جس میں سے :

 بیٹی کو 1 اور 

 فی بیٹے کو 2 

حصے ملیں گے۔

فیصد کے لحاظ سے:

 بیٹی کو %20

فی بیٹے کو %40

دیا جائے گا۔ 

1) ”ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم”۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)،5/ 696)

2) ”(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل”۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)،5/ 690)

3) “للذكر مثل حظ الأنثيين “۔ (سورة النساء،11)

فقط

و اللہ خیر الوارثین

قمری تاریخ: 22 صفر 1442ھ

عیسوی تاریخ: 9 اکتوبر 2020

اپنا تبصرہ بھیجیں