آج کل ایک وبا بہت زیادہ پھیل چکی ہے کہ ہر مسئلہ پوچھنے والا دلیل بھی مانگتا ہے چاہے وہ دلیل کی حیثیت اور صورت کو سمجھتا ہو یا نہیں
کیونکہ دلیل اگر آیت قرآنی ہے تو دو باتوں سے خالی نہ ہوگی
1 وہ آیت نافذالعمل ہوگی
2 یا پھر وہ منسوخ ہوگی
اور اگر دلیل حدیث مبارکہ ہے اولاً اس میں تین قسمیں بنے گیں
1 مرفوع
2 موقوف
3 مقطوع
پھر ان میں سے ہرایک کی 6 اقسام ہیں
1 صحیح لِذاتہ
2 صحیح لغیرہ
3 حسن لذاتہ
4 حسن لغیرہ
5 غریب مع متابِع
6 غریب بلا متابِع
3 کو 6 سے ضرب دیں تو 18 اقسام بنتیہیں
اس کے علاوہ راویوں کو حالات کے اعتبار سے سند کے اتصال اور انقطاع کے اعتبار سے اور روایت باللفظ وروایت بالمعنٰی کے اعتبار سے مزید اقسام در اقسام بنتی چلی جاتیہیں
اب اگر سائل ہر مسئلے کی دلیل مانگے تو پہلے اسے دلیل کی حیثیت اور صورت کا علم ہونا ضروری ہے ورنہ کوئی بھی اسے کوئی ایسی حدیث تھمادے گا جس کی شرعی حیثیت قابلِ عمل نہ ہوگی اور اس بات کا اس کو علم نہ ہونے کی وجہ سے پتہ نہ چل سکے گا اس لیے تمام سائلین سے میری مؤدبانہ گذارش ہے 2باتوں میں سے ایک اختیار کرلیں پہلی یہ کہ جس عالم یا مفتی سے مسئلہ پوچھ رہے ہیں اس پراعتماد اور بھروسہ کریں یا پھر خود محنت کرکے علومِ نبویہ حاصل کریں تاکہ دلیل کو پرکھ اور جانچ سکیں
اگر سائل غیر عالم ہے تو حوالہ نہ مانگے
اور اگر عالم ہے تو اولا خود تتبع اور تلاش کرے اگر تلاش کے بعد بھی نہ ملے تو جواب دینے والے سے رجوع کریں ورنہ بصورت دیگر ہم کتابوں کے مطالعے سے مستغنی ہوجائیں گے جوکہ علم کے انحطاط کی دلیل ہے
ان ارید الا الاالصلاح