لوگ بچیوں کو تعلیم دلاتے ہیں کیونکہ آج کل بچی کی تعلیم کا سوال سب سے پہلے کیا جاتا ھے ـ مگر تعلیم کے سائڈ ایفکٹ کے لئے بالکل تیار نہیں ہوتے تعلیم لڑکی کو آگہی اور شعور بھی دیتی ہے جس کے نتیجے میں لڑکی گھر کے معاملات میں رائے بھی دینے لگ جاتی ہے یوں مردوں کی ناک بھی کٹنا شروع ہو جاتی ہے اور وہ لڑکی کو ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ تم کو چار کلاس اس لئے نہیں پڑھایا تھا کہ گھر کے معاملات میں مداخلت شروع کر دو اپنے کام سے کام رکھو بھائی اپنا غصہ نکالتے ہیں اور امی ابا اپنی جگہ تنگ ہوتے ہیں۔
ادھر سسرال کو بھی لڑکی تو پڑھی ہوئی درکار ہوتی ہے مگر شعور اور آگہی یہاں بھی حرام ہے وہ صم بکم عمی ماسی کو پسند کرتے ہیں جو سر جھکا کر برتن مانجھتی رہے یا ڈسٹنگ کرتی رہے اس کے بچوں کے ساتھ زیادتی بھی ہورہی ہو تو بس دیکھتی رہے کوئی رد عمل نہ دے اگر وہ مشورے اور رائے دینے لگ جائے تو شوہر کو بھی زہر لگتی ہے اور ساس کو تو کالا یرقان لگتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب آپ کو چاہئے گوبھی تو اللہ کے بندو دکان سے ہی گوبھی خرید کر لاؤ ناں دکان سے آلو خرید کر اب سارے اس کو دھینگا مشتی سے گوبھی بنانے کے چکر میں ہو۔اگر اندھی بہری گونگی چاہئے تھی تو ایسی بہت ساری دستیاب ہیں اور بوڑھی ہورہی ہیں وہ بیاہ لانی تھیں تعلیم یافتہ کو جو مار مار کر اور ساڑھ ساڑھ کر جاہل بنانا چاہتےہو خواہ مخواہ اس کو بھی پاگل کر رہے ہو اور خود بھی پاگل ہورہے ہو!