طلاق حسن کے بعد عدت، عدت سے متعلق احکام

فتویٰ نمبر:3055

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر کسی عورت کو اس کا شوہر ایک طلاق دے پھر دوسرے طہر میں ایک طلاق پھر تیسرے طہر میں ایک تو اسکی عد ت کا کیا حکم ہے ؟ کب سے کب تک ہے اور عدت کے کیا احکام ہیں۔

تنقیح: ایک طلاق دینے کے بعد شوہر نے قول یا فعل کے ذریعہ رجوع کیا یا نہیں؟

جواب: نہیں۔ 

و السلام

الجواب حامدا و مصليا

اس طریقے سے طلاق دینا (یعنی ایسے طہر میں ایک طلاق دینا جس میں مجامعت نہیں ہوئی اور پھر رجوع کیے بغیراگلے دو طہر میں الگ الگ دو طلاق اور دینا) شریعت کی اصطلاح میں ‘طلاق حسن’ کہلاتا ہے۔ اس صورت میں پہلی طلاق سے ہی عدت شمار ہوگی۔ یعنی جس وقت پہلی طلاق دی گئی، اس کے تین حیض بعد تک عورت کی عدت رہتی ہے۔ تیسرے حیض سے پاک ہونے کے بعد مذکورہ خاتون کی عدت مکمل ہو جائےگی(۱)۔ تینوں طلاق واقع ہونے کی وجہ سے اپنے سابق شوہر سے دوبارہ شادی نہیں کر سکتی، البتہ عدت گزارنے کے بعد اپنے سابق شوہر کے سوا کہیں بھی شادی کر سکتی ہے۔ (۲)

عورت کے لیے عدت شوہر ہی کے گھر پر گذارنے کا حکم ہے۔ سورہ طلاق کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: [لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ] “تم انہیں ان کے گھروں سے مت نکالو!” فقہا کرام نے یہاں تک فرمایا کہ عورت کو عدت کے دوران اپنے میکہ جانے کے بجائے شوہر کو گھر سے نکلنا چاہیے، کیونکہ عورت کاگھر میں رہنا واجب ہے، نہ کہ شوہر کا۔(۳) مگر افسوس، صد افسوس! لوگ قرآن کے واضح حکم کو بہت ہلکا لیتے ہیں۔ ہاں، اگرشوہر کے گھر میں اس کو واقعی خطرہ ہو، اور اس کی حفاظت غیر یقینی ہو، تو میکہ میں جاکر عدت گذارنے کی گنجائش ہے۔(۴)

صورتِ مذکورہ میں چونکہ شوہر تین طلاق دے چکا ہے اور تین طلاقوں کے بعد کوئی رجوع کرنے کا اختیار نہی رہا۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے حق میں اجنبی ہو گئے اس لیےعورت پرعدت کے دوران (اور عدت کے بعد) اپنے سابق شوہر سے ایسا پردہ کرنا لازم ہوگا جس طرح دیگر غیر مردوں سے کرنا لازم ہے۔ (۵)

مطلقہ کی عدت کا خرچہ شوہر پر واجب ہوتا ہے(۶)

اگر شوہر نے مہر ادا نہیں کیا ہے توطلاق کے بعد عورت کا پورا مہر ادا کرنا شوہر کے ذمہ لازم ہے۔ (۷)

اگر شوہر نے بیوی کو کچھ تحفے تحائف دیا، تو ان کو واپس لینا درست نہیں ہوگا۔ (۸)

▪ (۱) وَأما الْحسن فَأن يطلقهَا وَاحِدَة فِي طهر لم يواقعها فِيهِ ثمَّ يُطلق فِي الطُّهْر الآخر وَاحِدَة ثمَّ فِي الطُّهْر الثَّالِث وَاحِدَة فَتبين (تحفۃ الفقہاء: ۲/۱۷۱)

▪ (۲) وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرۃ، وثنتین في الأمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ نکاحاً صحیحاً ویدخل بہا، ثم یطلقہا، أو یموت عنہا۔ (عالمگیري: ۱/۴۷۳)

▪ (۳) وفي الطلاق إلی حیث شاء الزوج … ولا بد من سترۃ بینہما لئلا یختلي بالأجنبیۃ … أو کان الزوج فاسقًا فخروجہ أولیٰ ؛ لأن مکثہا واجب لا مکثہ ، وحسن أن یجعل القاضي بینہما امرأۃ ثقۃ قادرۃ علی الحیلولۃ بینہما ۔ وفي المجتبی : الأفضل الحیلولۃ بستر ، ولو فاسقاً فبامرأۃ ۔ ( الدر المختار مع الشامي: ۵ /۲۲۷- ۲۲۶)

▪ (۴) وعلی المعتدۃ أن تعتد فی المنزل الذی یضاف إلیہا بالسکنی حال وقوع الفرقۃ والموت۔ (فتح القدیر: ۴/۳۴۴)

▪ (۵) ولا بد من سترۃ بینہما لئلا یختلي بالأجنبیۃ (رد المحتار: ۵ / ۲۴۵)

▪ (۶) إذا طلق الرجل امرأتہ فلہا النفقۃ والسکنیٰ فی عدتہا۔ (ہدایہ: ۲/۴۴۳)

▪ (۷) قال اللہ تعالیٰ: وَآَتُوْا النِّسَآئَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً۔ [النساء: ۴] و قال ایضا: فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہِ مِنْہُنَّ فَآَتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَۃً ۔ [النساء: ۲۴] 

▪ (۸) حکم الہبۃ ثبوت الملک للموہب لہ۔ (تاتارخانیۃ: ۱۴/۴۱۳ رقم: ۲۱۵۳۷)

فقط ۔ و اللہ اعلم 

قمری تاریخ: ۴ ربیع الثانی ١٤٤٠ھ

عیسوی تاریخ: ۱۱ دسمبر ٢٠١٨

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں