رشتہ زوجیت ( میاں بیوی کا رشتہ ) اللہ تعالیٰ کے بڑے انعامات میں سے ہے۔ یہی وہ نعمت ہے جس کی بدولت انسان کو اس دنیا میں سکون حاصل ہوتا ہے ۔لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ شامت اعمال سے شادی ہوتے ہی خانہ آبادی کی بجائے خ انہ بربادی شروع ہوجاتی ہے ۔عموما ازدواجی زندگی کے اس نازک مرحلے میں دو غلطیوں کا ارتکاب کیاجاتا ہے :
طلاق میں جلد بازی :
پہلی غلطی تو یہ کی جاتی ہے کہ معمولی تلخ کلامی اور جھگڑے پر بلا سوچے سمجھے عورت کو طلاق دے دی جاتی ہے ۔ مرد کو اتنا سخت مزاج نہیں ہونا چاہیے کہ عورت کی ذرا سی بد تمیزی پر غصہ کیاکرے ۔یہ تو درست ہے کہ ناگزیر حالات میں شریعت کی طرف سے مرد کو طلاق دینے کی اجازت دی گئی ہے ۔البتہ دیکھنا یہ ہے کہ جن حالات کے پیش نظڑ مرد عورت کو طلاق دے رہا ہے ۔کہیں اس میں مرد کی اپنی بد خلقی ،طبیعت کا روکھا پن اور حد اعتدال سے بڑھے ہوئے غٰظ وغضب کا عمل دخل تو نہیں جس کے نتیجے میں عورت میں کجی یعنی ٹیڑھا پن پیدا ہوگیا ہے۔اول تو مرد کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا چاہیے کہیں ایسا تو نہیں کہ قصود اس کا اپنا ہو اور سزا ایک کمزور صنف کو ملے ۔
آج کل ہمارے معاشرے میں عورت کو جن مسائل کا سامنا ہے طلاق کے بعد وہ دو چند ہوجاتے ہیں ۔ اس لئے انتہائی آخری حد اور ناگزیر حالات میں طلاق کی اجازت دی گئی ہے۔طلاق کو معمولی بات نہیں سمجھنا چاہیے ،جہاں تک نباہ کی صورت ہوسکتی ہو نباہنا چاہیے ۔ہمارے بعض بزرگوں نے عمر بھر عورتوں کی زیادتی کو گوارا کرلیا لیکن ان کو اپنے سے علیحدہ نہیں کیااگر عورتوں کی بعض عادتیں باعث اذیت بھی ہوں تو بھی مرد کو قوت برداشت سے کام لینا چاہیے ،کیونکہ یہ رشتہ ایسا نہیں کہ دو بول بول کر ہمیشہ کے لیے جدائی گوارا کرلی جائے ۔ حضرت مرزا مظہر جان جاناں ؒ کی بیوی بڑی بدمزاج تھیں اور آپ انتہائی نازک مزاج تھے ۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ” میری بیوی میری بڑی محسن ہیں۔مجھے یہ سب کمالات اسی کی بدلت ( یعنی اس کی بد تمیزی پر صبر کرنے کی وجہ سے )حاصل ہوئے ہیں ۔”
لہذا لڑائی جھگڑوں میں طلاق تک نوبت نہ پہنچائی جائے کیونکہ حدیث شریف آتا ہے۔ ابغض الحلال الی اللہ الطلاق (رواہ ابو داؤد) یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔
ضرورت شدیدہ کی طلاق کو معیوب سمجھنا:
دوسری کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ اگر تمام ممکنہ تدابیر اور مصلحتوں کے باوجود بھی عورت کے ساتھ نباہ کی کوئی صورت پیدا نہ ہورہی ہو اور حالات بجائے سدھر نے کے اور زیادہ بگڑتے جارہے ہوں، بجائے اتفاق کے بدمزگی اور فساد دن بدن بڑھتا جارہا ہو تو ان حالات میں شریوت کی طرف سے مرد کو طلاق دینے کی اجازت دی گئی ہے،کوئی مردان ناگزیر صورتوں کے بعد اگر بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو اس کو نہاجیت معیوب سمجھاجاتا ہے اور اس شخص کو عیب اور حقیر نظروں سے گھورا جاتا ہے جو بالکل غلط ہے۔اگر شوہر کو اپنی بیوی کی طرف بالکل میلان طبعی نہ رہا ہو۔بلکہ کشیدگی دن بدن بڑھتی جارہی ہو یا عورت ایسی بد دین ہوگئی ہو کہ اب اس کی اصلاح شوہر کی قدرت سے خارج ہوگئی ہو تو ان صورتوں میں فقہا نے طلاق کو مستحب کہ اہے ۔
لیکن پھر بھی بعض لوگ خاندانی وضع اور شرافت کے خلاف وضع اور شرافت کے خلاف ہونے کے خیال سے اس کو گوارا نہیں کرتے اور عمر بھر اپنی زندگی یا بیوی کی زندگی تلخ کرتے ہیں ۔ان جیسے حالات میں قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے : ترجمہ ” تم پر کوئی حرج نہیں کی عورتوں کو ( بوقت ضرورت ) طلاق دے دو “۔ ( بقرۃ : آیت 226)
عورت کی پیدائش چونکہ ازروئے حدیث ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے لہذا اس کے پیدائشی ٹیڑھے پن کو مدنظر رکھ کر ازدواجی زندگی گزاری جائے تو کبھی بھی طلاق کی نوبت نہ آئے اور عورت جس دن ٹیڑھی چلے تو خوش رہو کہ فطرت کے مطابق چل رہی ہے ۔ مرد کو بہرحال صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ حالات بگڑنے نہ پائیں ہاں جب حالات کو درست کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں اور نباہ کی کوئی صورت نظر نہ آئے اور ان مجبوریوں کی بناء پر مرد عورت کو طلاق دیدے تو پھر اس مرد کو ملامت کرنا یااس کے اس فعل کو معیوب سمجھنا بھی شرعا درست نہیں/
البتہ اگر ان ناگزیر حالات کی وجہ سے مرد نے طلاق دینے کا فیصلہ ہی کرلیا ہو تو جدائی کے اس نازک مرحلہ میں بھی شریعت نے ملاپ کی صورت باقی رکھنے کو پسند فرمایا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ایک دم سے اکھٹی تین طلاق دینے سے منع کیاگیا ہے ۔کیونکہ طلاقوں کے بعد ملاپ کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی ( سوائے حلالہ کے جس کے علیحدہ احکام وشرائط ہیں ) حکم یہی ہے کہ جب طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو عورت جب حیض ونفاس سے پاک ہو تو اس وقت صرف ایک طلاق رجعی دی جائے تاکہ طلاق کے بعد اگر مرد وعورت کو جدائی کے صدمے سے شرمندگی یا پشیمانی کا کچھ احساس پیدا ہوجائے تو مرد وعورت دوبارہ رجوع کرسکیں۔اکھٹی تین طلاقیں دینا شرعاً ناپسندیدہ ہے ۔