طلبہ و طالبات کے لیے چند مفید باتیں

تمام مدارس دینیہ میں جہاں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہونے والا ہے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے “طالب علم ” کے لیے چند مفید باتیں عرض کر دی جائیں ۔
1)”طالب علم کو چاہیے کہ علم کے حاصل کرنے میں کوئی فاسد نیت اور دنیوی غرض نہ ہو ۔اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کو کو راضی کرنے کے لیے اور اپنی آخرت درست کرنے کے لیے علم دین حاصل کرے ۔”
2)”طالب علم کو چاہیے کہ اپنے نفس کو رزیل عادات اور بری صفات سے پاک کرے ۔جھوٹ ، غیبت ، بہتان، سرقہ ، فضول گفتگو اور بری صحبت سے اپنے آپ کو ہمیشہ بچاتا رہے اس لیے کہ علم دل کی عبادت ہے جو ایک باطنی شے ہے پس جس طرح نماز جو ظاہری اعضاء کی عبادت ہے بغیر طہارت کے درست نہیں ہوتی ۔اسی طرح علم جو باطنی عبادت ہے بغیر طہارت باطنی کے حاصل نہیں ہوتی ۔”
3)”طالب علم کو چاہیے کہ اساتذہ کا ادب و احترام اپنے اوپر لازم سمجھے۔”
4)”طالب علم کو چاہیے کہ استاد کی خدمت کو اپنے لیے فلاح دارین کا ذریعہ سمجھے ۔طالب علم استاد کے کہنے کا انتظار نہ کرے خود ہی اس کا کام کر دیا کرے اور اس میں اپنی سعادت سمجھے ۔جو طالب علم اپنے استاد کی خدمت کرتا ہے اللہ پاک اس کو دینی و دنیاوی ترقی عطا فرماتا ہے ۔ایسے طلبہ بعد میں دین کی اشاعت کرتے ہیں جس سے ہزاروں بندگان خدا کو ہدایت نصیب ہوتی ہے ۔”
5)”طالب علم کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ اساتذہ کی تعظیم اور احترام کرے اسی طرح اس کو چاہیے کہ دین کی کتابوں کی عظمت بھی اس کے دل میں ہو۔
“کسی کتاب کو بغیر طہارت کے نہ چھوئے ۔”
“طالب علم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ کتاب کی طرف پیر دراز نہ کرے۔اور تفسیر ، حدیث ، فقہ کی کتابوں کو بقیہ فنون کی کتابوں کے اوپر رکھے ۔کتاب ادب کے ساتھ اٹھائے کسی کو دے تو پھینک کر نہ دے ۔اس میں کتاب کی بے ادبی ہے ۔”
6)”طالب علم کو چاہیے کہ اپنے رفیقوں اور ساتھیوں کا احترام کرے اور ان کے حقوق کا لحاظ رکھے اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ دے ۔”
7) “طالب علم کو چاہیے کہ اچھی طرح محنت کرے اپنے اوقات کو ضائع نہ کرے ۔ علم حاصل کرنے میں ہرگز سستی اور کاہلی سے کام نہ لے کیونکہ کاہلی علم سے محرومی کا باعث ہو گی ۔”
8) “طالب علم کو چاہیے کہ سبق کا کبھی ناغہ نہ کرے اس سے بے برکتی ہوتی ہے بسااوقات اس ناقدری کا نتیجہ علم سے محرومی کا سبب ہو جاتا ہے ۔”
9) “طالب علم کو چاہیے کہ سبق غور سے سنے اور اس کے بعد اسی کا تکرار کرے اس کے بغیر استعداد پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ ہی علم باقی رہ سکتا ہے ۔”
10) ” طالب علم کو علم کا حریص ہونا چاہیے اگر وطن میں رہ کر تحصیل علم کے مواقع نہ ہوں تو اس کے لیے سفر کرے۔جیسا کہ اب دور دراز کے علاقوں سے لوگ پڑھنے کے لیے اہم مدارس کا رخ کرتے ہیں ۔”٭11)”طالب علم کو چاہیے کہ علم جیسی بے بہا نعمت حاصل کرنے میں جو دشواریاں پیش آئیں ان کو برداشت کرے ۔اور اپنے اکابر کی زندگی کو سامنے رکھے کہ انہوں نے علم دین کی خاطر کیسے کیسے مصائب برداشت کیے ۔”
12)” طالب علم کو چاہیے کہ زمانہ طالب علمی میں کسی شیخ کامل سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کر لے اور ہر کام اس سے دریافت کرنے کے بعد کرے ۔”
اللہ پاک ہر ایک کو اس کی توفیق نصیب فرمائے اور سب کے طفیل میں اس سیہ کار کی بھی اصلاح فرمائے ۔ آمین ثم آمین

 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں