تبدیل ماہیت اہم مسائل و فتاوی

فقہیات

(قسط نمبر 8)

ولایتی صابن کا حکم :

سوال: آجکل ولایتی صابون عموماً استعمال کیا جاتا ہے، بعض لوگ کہتے ہیں اس میں خنزیر کی چربی پڑتی ہے، اس وجہ سے اس کے استعمال میں تردد پیدا ہوگیا ہے، شرعی حکم سے مطلع فرما کر ممنون فرمایا جائے؟

الجواب الاوّل :

{از حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب مدرسہ امینیہ دہلی}

اوّل تو یہ امر محقق نہیں کہ صابون میں خنزیر کی چربی پڑتی ہے، اگرچہ نصاریٰ کے نزدیک خنزیر کا استعمال جائز ہے اور انہیں اس سے کوئی پرہیز و اجتناب نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ ضروری نہیں کہ صابون میں اس کی چربی ضرور ڈالی جاتی ہو، ظاہر ہے کہ یورپین کارخانے تجارت کی غرض سے صابون بناتے ہیں اور ایسے ذرائع مہیا کرتے ہیں جن سے ان کی مصنوعہ اشیاء کی تجارت میں ترقی ہو،

آپ نے اکثر یورپین چیزوں کے اشتہاروں میں یہ الفاظ ملاحظہ فرمائے ہوں گے کہ اس چیز میں بنانے کے وقت ہاتھ نہیں لگایا گیا، اس چیز میں کسی مذہب کے خلاف کوئی چیز نہیں ڈالی گئی، اس چیز کو ہر مذہب کے لوگ استعمال کرسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ، ان باتوں سے ان کا مقصود کیا ہوتا ہے صرف یہی کہ اہل عالم کی رغبتیں اس چیز کی طرف مائل ہوں اور انکے مذہبی جذبات اور قومی خیالات ان اشیاء کے استعمال میں مزاحم نہ ہوں اور انکی تجارت ہر قوم میں عام ہوجائے، اور یہی ہر تجارت کرنے والے کے لئے پہلا مہتم بالشان اصول ہے کہ وہ اپنی تجارت کو پھیلانے کے لئے ان لوگوں کے مذہبی جذبات اور قومی خیالات کا لحاظ کرتے ہیں جن میں اس کی تجارت فروغ پذیر ہوسکتی ہے اور اس کے مال کی کھپت ہے، اہلِ یورپ جو ہندوستان اور اکثر اطراف عالم میں اپنا مال پھیلانا چاہتے ہیں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مسلمان ہر حصہ عالم میں بکثرت موجود ہیں اور یہ کہ مسلمان خنزیر اور اس کے اجزاء کے استعمال کو حرام مطلق سمجھتے ہیں، پس موافق اصول تجارت انکا اولین فرض یہ ہے کہ اشیاء تجارتی میں جن کی اشاعت وترویج ان کا مطمح نظر ہے ایسی چیزیں نہ ڈالیں جنکی خبر ہوجانے پر مسلمان ان چیزوں کے استعمال کو حرام سمجھیں اور انکی تجارت کوایک بڑا صدمہ پہنچے، میرا یہ مطلب نہیں کہ یورپین اشیاء میں ایسی چیزوں کا استعمال جو مسلمانوں کے نزدیک حرام ہیں غیر ممکن ہے م، بلکہ غرض صرف یہ ہے کہ یقینی طور پر معلوم نہ ہونے کی صورت میں گمان غالب یہ ہے کہ اصول تجارت کے موافق وہ ایسی چیزیں نہ ڈالتے ہوں گے، پس صرف اس بناء پر کہ یہ چیزیں یورپ سے آتی ہیں اور اہل یورپ کے نزدیک خنزیر حلال ہے، یہ خیال قائم کرلینا کہ ان میں ضروری طور پر خنزیر کی چرپی پڑتی ہوگی یا پڑنے کا گمان غالب ہے، صحیح نہیں، ہندو جنکے ہاتھ میں ہندوستان کی اکثری تجارت کی باگ ہے، بہت سی ناپاک چیزوں کو پاک اور پوتر سمجھتے ہیں، گائے کا گوبر اور پیشاب ان کے نزدیک نہ صرف پاک بلکہ متبرک بھی ہے، باوجود اسکے انکے ہاتھ کی مٹھائیاں اور بہت سی خوردنی چیزیں عام طور پر مسلمان استعمال کرتے ہیں اور استعمال کرنا شرعاً جائز بھی ہے یہ کیوں صرف اس لئے کہ چونکہ ہن دودکاندار جانتے ہیں کہ ہمارے خریدار ہندو، مسلمان اور دیگر اقوام کے لوگ ہیں، اور ہندوؤں کے علاوہ دوسرے لوگ گائے کے گوبر اور پیشاب کو ناپاک سمجھتے ہیں، اس لئے وہ تجارتی اشیاء کو ایسی چیزوں سے علیحدہ اورصاف رکھتے ہیں تاکہ خریداروں کو ان سے خریدنے میں تامل نہ ہو اور خریداروں کے مذہبی جذبات ان کی تجارتی اغراض کی مزاحمت نہ کریں،

یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے جس پر بہت سے جزئیات کا حکم متفرع ہوتا ہے اور نہ صرف صابون بلکہ یورپ کی تمام مصنوعات کی طہارت و نجاست اسی قاعدے کے نیچے داخل ہے، ولایتی کپڑے اور بالخصوص رنگین کپڑے جو مسلمان عموماً استعمال کرتے ہیں کسے خبر ہے کہ ان رنگوں میں کیا کیا چیزیں ملائی جاتی ہیں اور کن پاک یا ناپاک اشیاء کی آمیزش ہوتی ہے، لیکن قاعدہ مذکورہ کی بناء پر ان چیزوں کا بھی یہی حکم ہے کہ جب تک یقینی طور پر یا بگمان غالب یہ ثابت نہ ہو کہ کوئی ناپاک چیز ملائی جاتی ہے، ناپاکی کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔

طہارت و نجاست کے باب میں کتب فقہیہ میں بہت سی ایسی نظیریں موجود ہیں جن میں محض گمان اور شک کا کوئی اعتبار نہیں کیا گیا، ماہرین کتب فقہ پر یہ امر واضح ہے۔

ثانیاً اگر اس امر کا ثبوت اور کوئی دلیل بھی موجود ہو کہ صابون میں خنزیر کی چربی پڑتی ہے، تاہم صابون کا استعمال جائز ہے، کیونکہ صابون میں جو ناپاک تیل یا چربی پڑتی ہے وہ صابون بن جانے کے بعد پاک ہوجاتی ہے، روایات ذیل ملاحظہ ہوں:

ویطھر زیت تنجس یجعله صابونا بہ یفتی للبلوی کتنور رش بماء نجس لاباس بالخبز فیه (درمختار) 

(یعنی) روغن زیتون ناپاک ہوجائے تو صابون بنالینے سے پاک ہوجاتا ہے، اسی پر عموم 

بلوی کی وجہ سے فتویٰ دیا جاتاہے، جیسے تنور میں ناپاک پانی چھڑک دیا جائے تو اس میں روٹی پکانے کا مضائقہ نہیں، جعل الدھن النجس فی صابون یفتی بطھارته لانه تغیر والتغیر یطھر عند محمد ویفتی بہ للبلوی اھ (مجتبی کذا فی ردالمختار) یعنی ناپاک تیل صابون میں ڈال دیا جائے تو پاک ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی حقیقت پلٹ جاتی ہے اور حقیقت کا پلٹ جانا امام محمد ؒ کے نزدیک پاک کردیتا ہے اور عموم بلوی کی وجہ سے اسی پر فتوی ہے…..

قد ذکر ھذہ المسئلة العلامة قاسم فی فتاواہ وکذا ما سیاتی متناً وشرحاً من مسائل التطھیر بانقلاب العین وذکر الأدلة علی ذلک بما لامزید علیه وحقق ودقق کما ھو دأبه رحمه اللہ فلیراجع ثم ھذہ المسئلة قد فرعوھا علی قول محمد بالطھارۃ بانقلاب العین الذی علیہ الفتوی واختارہ اکثر المشائخ خلافا لابی یوسف کما فی شرح المنیة والفتح وغیرھما (ردالمحتار) 

(یعنی) اس مسئلہ کو علامہ قاسم نے اپنے فتاوی میں ذکر کیاہے، اور اسی طرح وہ مسائل جو متن وشرح میں آگے آتے ہیں انقلاب عین پر پاکی کا حکم دیا گیا ہے، اور علامہ قاسم نے اس کے دلائل نہایت تحقیق و تدقیق سے بیان فرمائے جیسا کہ ان کا طریقہ ہے، خدا تعالیٰ ان پر باران رحمت نازل فرمائے، پھر سمجھنا چاہیے کہ یہ مسئلہ فقہاء نے امام محمدؒ کے قول پر متفرع کیا ہے کہ ان کے نزدیک انقلاب عین سے پاکی حاصل ہوجاتی ہے اور اسی قول پر فتوی ہے، اور اسی کو اکثر مشائخ نے اختیار کیا ہے، امام ابویوسفؒ کا اس میں خلاف ہے، جیسا کہ شرح منیہ اور فتح القدیر میں مذکور ہے ان نصوص فقہیہ سے امور ذیل ثابت ہوتے ہیں :

۱) انقلاب حقیقت سے طہارت و نجاست کا حکم بدل جاتا ہے۔

۲) یہ حکم طہارت بانقلاب حقیقت امام محمدؒ کا قول ہے اور اسی پر فتوی ہے، اور اکثر مشائخ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔

۳) صابون میں روغن نجس یا چربی کی حقیقت بدل جاتی ہے اور انقلاب عین حاصل ہوجاتا ہے، (درمختار اور مجتبٰی کی مذکورہ بالا عبارتیں دیکھئے)

پس اب سوال کا جواب واضح ہوگیا، کہ صابون خواہ کسی چیز کی چربی یا روغن نجس سے بنایا جائے صابون بن جانے کے بعد وہ پاک ہوجاتا ہے اور اس کا استعمال جائز ہے، کیونکہ انقلاب حقیقت کی وجہ سے وہ چربی چربی اور روغن روغن نہ رہا بلکہ صابون ہوکر پاک ہوگیا، جیسے مشک اصل میں خون ناپاک ہوتا ہے، لیکن مشک بن جانے کے بعد وہ پاک اور جائز الاستعمال ہوجاتا ہے، پس ولایتی صابون کے استعمال کے لئے اس تحقیقات کی کچھ ضرورت نہیں کہ اس کے اجزاء کیا ہیں، وہ پاک ہیں یا ناپاک کیونکہ حقیقت صابونیہ اس کی طہارت کی کفیل ہے۔ جیسے کہ حقیقت مشکیہ اسکی طہارت کی ضامن ہے۔

اگر کسی کو یہ شبہ ہوکہ روایات مذکورہ سابقہ سے روغن نجس کے صابون کا پاک ہونا ثابت ہوتا ہے، لیکن ممکن ہے کہ یہ حکم روغن کے ساتھ خاص ہو کیونکہ اصل اس کی پاک ہے ناپاکی باہر سے اسے عارض ہوئی ہے، پس اس سے خنزیر کی چربی سے بنے ہوئے صابون کا حکم نکالنا صحیح نہیں، کیونکہ خنزیر اور اسکے اجزاء نجس العین ہیں، تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ انقلاب عین سے پاک ہوجانا نجس العین اور غیر نجس العین دونوں میں یکساں طور پرجاری ہوتا ہے، خون بھی نجس العین ہے مشک بن جانے سے پاک ہوجاتا ہے، خود خنزیر کا انقلاب حقیقت کے بعد پاک ہوجانا بھی روایات ذیل سے ثابت ہے :

ولا ملح کان حمارا وخنزیرا ولا قذر وقع فی بئر فصار حمأۃ لانقلاب العین بہ یفتی۔ درمختار

(یعنی) وہ نمک ناپاک نہیں جو دراصل گدھا یا خنزیر تھا، اور وہ پلیدی بھی جو کنوئیں میں گر کر کیچڑ بن جائے ناپاک نہیں، کیونکہ انقلاب حقیقت ہوگیا، اسی پر فتوی ہے، 

قولہ لانقلاب العین علة للکل وھذا قول محمدؒ وذکر معه فی الذخیرۃ والمحیط ابا حنیفة (حلیہ) قال فی الفتح وکثیر من المشائخ اختاروہ وھوالمختار لان الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة وتنتفی الحقیقة بانتفاء بعض اجزاء مفھومھا فکیف بالکل فان الملح غیر العظم واللحم فاذا صار ملحا ترتب حکم الملح ونظیرہ فی الشرع النطفة نجسة وتصیر علقة وھی نجسة وتصیر مضغة فتطھر والعصیر طاہر فیصیر خمراء فینجس ویصیر خلاً فیطھر فعرفنا ان استحالة العین تستتبع زوال الوصف المرتب علیھا اھ (ردالمحتار)

مصنف کا قول کہ انقلاب عین موجب طہارت ہے ، یہ گدھے اورخنزیر کے نمک اور پلیدی کے کیچڑ بن جانے کے بعد پاک ہونے کی دلیل ہے، اور یہ امام محمدؒ کا قول ہے اور ذخیرہ اور محیط میں امام ابوحنیفہؒ کو بھی امام محمد کے ساتھ ذکر کیا ہے(حلیہ) اورفتح القدیر میں ہے کہ بہت سے مشائخ نے اسکو اختیار کیاہے، اور یہی مذہب مختار ہے، کیونکہ شریعت نے وصف نجاست اس کی حقیقت پر مرتب کیا تھا، اور حقیقت بعض اجزاء کے منتفی ہوجانے سے منتفی ہوجاتی ہے تو بالکل پلٹ جانے سے کیوں منتفی نہ ہو، کیونکہ نمک گوشت اورہڈی سے مغایر ہے اور اس کی نظیر شریعت میں یہ ہے کہ نطفہ ناپاک ہے پھر وہ علقہ یعنی خون بستہ بن جاتا ہے وہ بھی ناپاک ہے ، پھر مفغہ یعنی گوشت بن کر پاک ہوجاتا ہے، اور شیرہ انگور پاک پھر شراب بن کر ناپاک ہوجاتا ہے، پھر سرکہ بن کر پاک ہوجاتا ہے، اس سے ہم نے جان لیا کہ حقیقت کا پلٹ جانا اس وصف کے زوال کو مستلزم ہے جو اس حقیقت پر مرتب تھا، انتہی،

یجوز اکل ذلک الملح (ردالمحتار) الحمار و الخنزیر اذا وقع فی المملحة فصار ملحاً او بئر البالوعة اذا صار طینا یطھر عندھما خلافا لابی یوسفؒ کذافی محیط السر خسی فتاوی عالمگیری

اس نمک کا کھانا جائز ہے، انتہی۔ گدھا یا خنزیر کانِ نمک میں گرکر نمک بن جائیں یا نجاست کا کنواں بالکل کیچڑ ہوجائے تو پاک ہوجاتا ہے، یہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ کا مذہب ہے، اور امام یوسف کا خلاف ہے، انتہی۔

ولو احرقت العذرۃ او الروث فصار کل منھما رماداً او مات الحمار فی المملحة وکذا ان وقع فیھا بعد موته وکذا الکلب والخنزیر لو وقع فیھا فصار ملحاً طھر عند محمدؒ واکثر المشائخ اختار واقول محمد ؒ وعلیہ الفتوی لان الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة وقد زالت بالکلیة فان الملح غیر العظم واللحم فاذا صارت الحقیقة ملحا ترتب حکم الملح حتی لو اکل الملح جاز ونظیرہ النطفة نجسة وتصیر علقة وھی نجسة وتصیر مضغة فتطھر وکذا لخمر تصیر خلاً وعلی قول محمد فرعوا طھارۃ صابون صنع من دھن نجس وعلیہ یتفرع مالو وقع انسان او کلب فی قدرالصابون فصار صابونا یکون طاہر التبدل الحقیقة انتہی مختصرا غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی)

(یعنی) اگر پاخانہ یا گوبر جلا کر راکھ کردیا جائے، یا گدھا کان نمک میں گر کر مرجائے یا مر کر گر پڑے، اسی طرح کتا یا خنزیر گر جائے اور نمک بن جائے تو امام محمد کے نزدیک پاک ہوجاتا ہے اور اکثر مشائخ نے امام محمدؒ کے قول کو اختیار کیا ہے اور اسی پر فتویٰ ہے، کیونکہ شریعت نے نجاست کا حکم اسکی حقیقت پر لگایا تھا جو بالکلیہ زائل ہوگئی کیونکہ نمک ہڈی اور گوشت سے جدا چیز ہے، پس جبکہ حقیقت نمک بن گئی تو نمک کا حکم اس پر لگ گیا، یہاں تک کہ اس کا کھانا جائز ہے، اور اس کی نظیر نطفہ ہے کہ وہ ناپاک ہے پھر خون بستہ بن جاتا ہے وہ بھی ناپاک ہے، پھر گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اور پاک ہوجاتاہے، اور اسی طرح شراب کہ نجس ہے سرکہ بن کر پاک ہوجاتی ہے اور مام محمد کے اس قول پر صابون کی طہارت بھی متفرع ہے جو ناپاک تیل سے بنایا جائے اور اسی قول پر یہ مسئلہ بھی متفرع ہوتا ہے کہ انسان یا کتا صابون کی دیگ میں گر کر صابون بن جائے تو پاک ہوجائے گا کیونکہ حقیقت بدل گئی،

ان روایات منقولہ سے امور ذیل بصراحت ثابت ہوگئے :

۱) گدھا، خنزیر، کتا، انسان انقلاب حقیقت کے حکم میں سب برابر ہیں ،کچھ تفاوت نہیں۔

۲) یہ کان نمک میں گر کر مریں یا مرے ہوئے گریں، دونوں حالتوں میں یکساں حکم ہے، یعنی میتہ (مردار) جو بنص قرآنی حرام ونجس ہے وہ بھی اس حکم میں شامل ہے۔

۳) انسان جس کے اجزاء سے بوجہ کرامت انتفاع حرام ہے، اور خنزیر ومیتہ جن سے بوجہ نجاست انتفاع حرام ہے، انقلاب حقیقت کے بعد ان پر انسان اور خنزیر اور میتہ کا حکم باقی نہیں رہتا بلکہ بعد انقلاب حقیقت پاک اور جائز الانتفاع ہوجاتے ہیں، جبکہ انقلاب حقیقت طاہرہ کی طرف ہو۔

۴) کان نمک میں گرنے اور صابون کی دیگ میں گرنے کا حکم یکساں ہے کہ دونوں صورتیں موجب انقلاب حقیقت ہیں جیسا کہ کبیری شرح منیہ کی عبارت میں صراحةً مذکور ہے، ان امور کے ثبوت کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ خنزیر یا میتہ یا کتے کی چربی سے بنے ہوئے صابون کے جوازِ استعمال میں تردد کیاجائے۔

اور یہ شبہ کچھ وقعت نہیں رکھتا کہ خنزیر بنص قرآنی حرام اور نجس ہے ، پس صابون بن جانے کے بعد اس کی طہارت کا حکم کرنا نص قرآنی کا معارضہ ہے ، کیونکہ (اس کا) جواب (یہ ہے کہ) یہ معارضہ نہیں، نص قرآنی نے خنزیر یا میتہ کو نجس بتایا ہے، لیکن نمک یا صابون بن جانے کے بعد وہ خنزیر یا میتہ ہی کہاں رہے، دیکھو شراب بنص قرآنی حرام اور نجس ہے اور سرکہ بن جانے کے بعد بالاتفاق وہ پاک اور حلال ہوجاتی ہے، پس جس طرح کہ شراب منصوص النجاسة پر سرکہ بن جانے کے بعد طہارت وحلت کا حکم کرنا نص قرآنی کا معارضہ نہیں، اسی طرح خنزیر کے صابون بن جانے کے بعد اس کی طہارت کا حکم نص ِقرآنی کا معارضہ نہیں،

اصل یہ ہے کہ شریعت نے جس حقیقت پر نجاست کا حکم لگایا تھا وہ حقیقت ہی نہیں رہی اور بعد انقلاب جو حقیقت متحقق ہوئی وہ شریعت کے نزدیک پاک ہے پس یہ حکم طہارت بھی حکم شرعی ہے نہ (کہ) غیر۔

تنبیہات مہمہ مفیدہ :

۱) یہ بات ضروری طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگرچہ خنزیر ومیتہ وغیرہ کی چربی سے بنے ہوئے صابون کا استعمال جائز ہے لیکن کسی مسلمان کو یہ حلال نہیں ہے کہ وہ خنزیر وغیرہ کی چربی سے صابون بنائے!

کیونکہ قصداً حرام چیزوں کو صابون بنانے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ،اور یہ جدا بات ہے کہ غیر مسلموں کے بنانے اور صابون بن جانے کے بعد استعمال جائز ہوجائے۔

۲) انقلاب حقیقت سے حکم بدل جانے کے متعلق جو لکھا گیا ہے اس میں اتنی بات تو یقینا ثابت ہے اور فقہاء کی تصریحات بھی اس کے متعلق آپ ملاحظہ فرما چکےکہ جب انقلاب حقیقت ہوجائے تو حکم بدل جاتا ہے، لیکن یہ بات ابھی تک قابل تحقیق ہے کہ انقلاب حقیقت سے مراد کیا ہے؟ تو واضح ہوکہ انقلاب حقیقت سے مراد یہ ہے کہ وہ شے فی نفسہ اپنی حقیقت چھوڑ کر کسی دوسری حقیقت بدل ہوجائے، جیسے شراب سرکہ ہوجائے یا خون مشک بن جائے یا نطفہ گوشت کا لوتھڑا وغیرہ وغیرہ کہ ان صورتوں میں شراب نے فی نفسہ اپنی حقیقت خمریہ اور خون نے اپنی حقیقت دمویہ اور نطفہ نے اپنی حقیقت منویہ چھوڑدی اور دوسری حقیقتوں میں متبدل ہوگئے، حقیقت بدل جانے کا حکم اسی وقت دیا جاسکتا ہے کہ حقیقت اولیٰ منقلبہ کے آثار مختصہ اس میں باقی نہ رہیں، جیسا کہ امثلہ مذکورہ میں پایا جاتا ہے کہ سرکہ بن جانے کے بعد شراب سے شراب کے آثارمختصہ بالکل زائل ہوجاتے ہیں، بعض آثار کا زائل ہوجانا یا بوجہ قلت آثار کا محسوس نہ ہونا موجب انقلاب نہیں جیسا کہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگر آٹے میں کچھ شراب ملا کر گوندھ لیاجائے اور روٹی پکائی جائے تو وہ روٹی ناپاک ہے یا گھڑے دوگھڑے پانی میں تولہ دو تولہ شراب یا پیشاب مل جائے تو وہ پانی ناپاک ہے، حالانکہ روٹی میں یا پانی میں اس قلیل المقدار شراب کا کوئی اثر محسوس نہ ہوگا، لیکن چونکہ شراب نے ان صورتوں میں فی نفسہ اپنی حقیقت نہیں چھوڑی ہے اس لئے ناپاکی کا حکم باقی ہے، اور محسوس نہ ہونا بوجہ قلت اجزاء کے ہے چونکہ شراب کے اجزاء کم تھے اور آٹے کے زیادہ اس لئے وہ روٹی میں محسوس نہیں، پس یہ اختلاط (ہے) نہ (کہ) انقلاب۔

اسی طرح حقیقت منقلبہ کی بعض کیفیات غیر مختصہ کا باقی رہنا مانع انقلاب نہیں جیسے شراب کے سرکہ بن جانے کے بعد بھی اس کی رقت باقی رہتی ہے، یا صابون میں قدرے دسومت (چکناہٹ) روغن نجس کی باقی رہتی ہے ، کیونکہ رقت، حقیقت خمریہ کے ساتھ اور دسومت، حقیقت دہنیہ کے ساتھ مختص نہیں ہے، پس انقلاب عین کی وجہ سے تبدل احکام کا حکم کرتے وقت بہت غور واحتیاط سے کام لینا ضروری ہے، کیونکہ بسا اوقات انقلاب و اختلاط میں اشتباہ پیش آجاتا ہے، اور انقلاب کو اختلاط یا اختلاط کو انقلاب سمجھ لیا جاتا ہے۔

۳) اس انقلاب و اختلاط کے اشتباہ کا ہمارے اس مسئلہ صابون پر کوئی اثر نہیں ہے ، کیونکہ ہم نے تصریحات فقہاء سے یہ بات ثابت کردی ہے کہ کسی چیز کا صابون بن جانا انقلاب حقیقت ہے نہ(کہ )اختلاط، اس لئے اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں

واللہ اعلم وعلمہ اتم

ہذا التحقیق صحیح، عزیزالرحمن۔

الجواب صواب ، محمد انور عفا اللہ عنہ،

کتبہ الراجی رحمۃ ربہ محمد کفایت اللہ غفرلہ مفتی مدرسہ دیو بند، دارالعلوم دیوبند، مدرس المدرسۃ الامینیۃ الواقعۃ بدہلی ، ۲۵ شعبان ۱۳۳۴ھ

ناشر: دارالریان کراتشی

اپنا تبصرہ بھیجیں