(قسط نمبر 5)
مردار اورحرام جانوروں کے تیل کا حکم:
سوال: اگرتیل میں حشرات الارض یا کوئی نجس چیز نہیں اور وہ تیل پاک ہے یانہیں، مطلب یہ ہے کہ جیسے وہ اجزاء کوئلہ ہوگئے جو اب بشکل کوئلہ دکھائی دیتے ہیں ایسے ہی تمام اجزاء مختلط بالدہن بھی جل گئے اور تبدیل ماہیت ہوگئی پھر پاک وحلال کیوں نہ ہوں؟
الجواب: حشرات الارض اگر ایسے ہیں کہ ان میں دَمِ سائل نہیں تو انکو تیل میں جلانے سے (تیل) ناپاک نہیں ہوتا، اس کا استعمال جائز رہتا ہے، اور اگر حشرات الارض ذی دم مسفوح (بہنے والے خون والے کیڑے) ہیں تو ان کو تیل میں ڈال کر جلانے سے تیل ناپاک ہوجائیگا اور اس تیل کا استعمال جائز نہ ہوگا، خواہ حشرات الارض زندہ تیل میں ڈالے گئے ہوں یا مرنے کے بعد، کیوں کہ ملاقاتِ نجس سے جب تیل نجس ہوگیا تو وہ ناپاک رہیگا، اگرچہ جو جانور اس میں ڈالا گیا ہے وہ جل کر کوئلہ ہوگیا ہو مگر تیل نجس اپنی نجاست پر باقی ہے، اس کی نجاست کسی طرح زائل نہیں ہوئی چنانچہ اس پر ردالمحتار کی روایات ذیل دلالت کرتی ہیں :
وکذا لووقعت (الفارۃ) فی العصیر أو ولغ فیہ کلب ثم تخمر ثم تخلل لا یطھر ھوالمختار عن الخلاصۃ اور نیز خانیہ سے نقل کیا ہے : والنحل النجس اذاصُبَّ فی خمر فصار خلایکون نجسا لان النجس لمیتغیر
بالجملہ صورت موجہہ میں جو نجاستِ دہن کا حکم کیا گیاہے وہ باعتبارِ ملاقاتِ نجاست (نجاست کے ملنے کے اعتبار) کے کیا گیا ہے، اور بعد ملاقاتِ نجس نفس ِ تیل میں کوئی تغیر نہیں ہوا، پھر محض اسکے پکنے سے طہارت کا حکم نہیں کیا جاتا، ہاں غایتہ مافی الباب وہ حشرات الارض جو تیل میں جل کر کوئلہ ہوگئے ہیں وہ بوجہ تبدیل ِ عین بہ نجاست میتہ ناپاک نہیں رہے ، اور انکا حکم پاخانہ کے خاکستر کا ہوگیا ہے، لیکن تیل کی نجاست کی وجہ سے ان کاکوئلہ بھی ناپاک ہے۔ فقط واللہ اعلم ،حررہ خلیل احمد عفی عنہ (فتاوی مظاہر علوم المعروف فتاوی خلیلیہ)
ناشر :دارالریان کراتشی