حضرت اقدس شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین درج ذیل مسئلہ کے بارے مٰیں :
(1 ) تبدیلئ جنس کا کیا حکم ہے ؟ اگر کسی مرد کے اندر کچھ زنانہ جسمانی علامتیں ہوں اور ان کو ختم کرکے مکمل مرد بنادیا جائے ،کسی عورت کے اندر کچھ مردانہ جسمانی علامتیں ہوں اور اسکو آپریشن کرکے مکمل عورت بنادیاجائے ۔
(2) اگر کسی مرد کے اندر کچھ زنانہ جسمانی علامتیں ہوں تو اسکو آپریشن کرکے مکمل عورت بنادیاجائے یا کسی مرد کے اندر کچھ زنانہ علامتیں ہوں تو اسکو آپریشن کرکے مکمل مرد بنادیاجائے ۔
(3) یا اس میں دونوں طرح کی علامتیں برابر ہوں،اور آپریشن کے ذریعے مکمل طور پر ایک جنس بنادیا جائے یااس میں ایک جنس غالب ہوجائے تو ان صورتوں میں تبدیلئ جنس کنادرست ہے یانہیں ؟
(4) اور بالفرض کسی نے اپنا جنس تبدیل کردیا تو اس پر عائد ہونے والے احکامات بھی تبدیل ہوجائنگے یا نہیں ؟
جیسا کہ لڑکا اگر لڑکی بن جائے تو کیا اس پر لڑکیوں والےاحکامات جاری ہونگے اور وہ شریعت کی نظر میں لڑکی شمار کی جائے گی ؟یا شریعت کی نظرمیں یہ لڑکا ہی باقی رہے گا ۔
اس کے برعکس اگر کوئی لڑکی لڑکا بن جائے ،تو اسکا شریعت کے رو سے کیا حکم رہے گا؟وہ شریعت کی نظر مٰیں لڑکی شمار کی جائے گی یا اس پر لڑکے والے احکامات جاری ہونگے؟
5 ۔ اگر خنثی مشکل اپنے جنس کو تبدیل کرکے ایک جنس ہوجائے تو اسے جس جنس میں سے وہ ہوگیا ہے اس میں شمار کیا جائےگا یا وہ خنثی ہی باقی رہےگا ؟
6 ۔ اس قسم کے آپریشن کرنا ڈاکٹر کے لئے جائز ہے یا تبدیلئ خلقت کے مرادف ہوگا ؟
دعاؤں کا طلبگار
محمد ندیم اختر ندوی
28 صفر المظفر 1433ھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا ومصلیا
جوابات سے قبل بطور تمہید یہ جاننا مناسب ہے کہ مرد یا عورت کا آپریشن یا ادوات کے ذریعے جنس تبدیل کرنا “تغییر لخلق اللہ میں داخل ہے جو قرآن وحدیث کی رو سے ناجائز وحرام ہے ۔ہاں اگر کسی مرد میں علامتیں زنانہ ہوں یا کسی عورت میں کچھ علامتیں مردانہ ہوں یا ایک شخس میں مردانہ وزنانہ دونوں علامتیں یکساں طور پر موجود ہوں تو چونکہ مرد میں زنانہ علامتوں کا ہونا یا عورت مین مردانہ علامتوں کا ہونا عیب ہے اس ازالہ ویب کی غرض سے مخالف جنس کی علامتوں کو ولاج یا آپریشن کے ذریعے ختم کرنا اور مکمل مرد اور مکمل عورت بننا شرعا جائز ہے۔ اس تمہید کے بعد سوال میان تبدیلئ جنس کی جو صورتیں ذکر کی گئی ہے انکا حکم بالترتیب درج ذیل ہے :
(1) اگر کسی مرد میں کچھ زنانہ جسمانی علامتیں ہوں تو انکو ختم کرکے کامل مرد بننا،اسی طرح اگر کسی عورت میں کچھ مردانہ جسمانی علامتیں ہوں تو ان علامتوں کو ختم کرکے کامل عورت بننا خواہ آپریشن کے ذریعے ہو یا ادویات کے ذریعہ شرعا جائز ہے ۔کیونلہ مرد میں زنانہ علامت ہونا یا عورت میں مردانہ علامت ہونا عیب ہے اور عیب کا ازالہ کرنا شرعا جائز ہے ۔
(2) اگر کسی مرد مٰیں مردانہ علامات غالب ہوں لیکن کچھ زنانہ جسمانی علامتیں بھی ہوں تو ان زنانہ علامتوں کو مزید پختہ کرکے اور مردانہ خدخال اور صلاحیتوں کو ختم کرکے مکمل عورت بننا ،اسی طرح اگر کسی عورت مٰیں زنانہ خصوصیات کے ساتھ کچھ مردانہ جسمانی علامتیں بھی ہوں تو ان مردانہ علامتوں کو مزید پختہ کرکے اور زنانہ صلاحیتوں اور خدخال کو ختم کرکے مکمل مرد بننا ، خواہ آپریشن کے ذریعہ ہو یا ادویات کے ذریعہ شرعا ناجائز ہے ۔ کیونکہ یہ صورتیں ازالہ عیب میں میں داخل نہیں بلکہ “تغییر لخلق اللہ ” میں داخل ہونے ہیں جع ناجائز اور حرام ہے ۔
(3) مردانہ وزنانہ مساوی علامتوں کے حامل شخص میں ایک جنس کو غالب کرنا شرعا جائز ہے ۔کیونکہ بیک وقت دونوں علامات کا ہونا عیب ہے ۔
(4) جو جنس غالب ہو یا ازالہ عیب کے بعد جو جنس واضح طور پر غالب آجائے اسی کے احکام لاگو ہونگے بشرطیکہ جوجنس اختیار کی گئی ہو وہ غالب ہو ،خنثی مشکل نہ ہو ۔
فی الدر المختار (6/727)
فان بال (الخنثی ) من الذكر فغلام وان بال من الفرج فأنثی وان بال منهما فالحكم للاسبق وان استویا فمشكل ولا تعتبر الكثرة) ،خلافا لهما هذا قبل البلوغ (فان بلغ وخرجت لحیته أو وصل الی امرأة او احتلم) كما یحتلم الرجل (فرجل وان ظهر له ثدی او لبن او حاض أو حبل أو أمكن وطؤه فامرأة وان لم تظهر له علامة أصلا أو تعارضت العلامات فمشكل ۔
وفی الهندیة (6/438)
ولیس الخنثی یكون مشكلا بعد الادراك علی حال من الحالات لأنه اما یحبل او یحیض او یخرج له لحیة أو یكون له ثدیان كثدیی المرأة وبهذا یتبین حاله وان لم یكن له شئ من ذلك فهو رجل لأن عدم نبات الثدیین كما یكون للنساء دلیل شرعی علی انه رجل كذا فی المبسوط لشمس الأئمه السرخسی رحمه الله تعالی۔
(5) موجودہ جنس میں شمار کیا جائے گا ،اب خنثی مشکل باقی نہیں رہے گا ۔
(6) اوپر جو صورتیں ذکر کی گئی ہیں ان میں جائز صورتوں میں علاج یا آپریشن کرنا ڈاکٹر کے لئے جائز ہے ، اور ناجائز صورتوں میں علاج یا آپریشن کرنا جائز نہیں سخت گناہ ہے ۔(ماخذہ التبویب بتغییر:46/977)
قال الله سبحانه وتعالی لَّعَنَهُ اللّٰهُ ۘوَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا ١١٨ۙ
جس پر اللہ نے پھٹکار ڈال رکھی ہے، اور اس نے ( اللہ سے) یہ کہہ رکھا ہے کہ : میں تیرے بندوں سے ایک طے شدہ حصہ لے کر رہوں گا،
وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّيَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يَّتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِيْنًا ١١٩ۭ
اور میں انہیں راہ راست سے بھٹکا کر رہوں گا، اور انہیں خوب آرزوئیں دلاؤں گا، اور انہیں حکم دوں گا تو وہ چوپایوں کے کان چیر ڈالیں گے، اور انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کریں گے۔ اور جو شخص اللہ کے بجائے شیطان کو دوست بنائے اس نے کھلے کھ لے خسارے کا سودا کیا۔
(النساء : 118،119)
لَعَنَه اللٰه وَقَالَ لَأتَّخِذَنَّ مِنٗ عِبَاِدك نَصِیبا مفروضا ولأضلنهم ولأمنینهم ولآمرنهم فلیبتكن آذان الأ نعام ولآمرنهم فلیغیرن خلق الله ومن یتخذ الشیطان ولیا من دون الله فقد خسر خسرانا مبینا ۔
وفی الصحیح للبخاری (كتاب اللباس ،باب المتفلجات للحسن )
عن علقمة قال عبدالله : لعن الله الواشمات والمستوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغیرات خلق الله تعالی مالی لا ألعن من لعن النبی صلی الله علیه وسلم وهو فی كتاب الله “وماآتاكم الرسول فخذوه”
وفی تكملة فتح الملهم (4/195)
والحاصل أن كل ما یفعل من زیادة أونقص من أجل الزینة بما یجعل الزیادة أو النقصان مستمرا مع الجسم وبما یبدو منه مستمرا مع الجسم وبما یبدو منه أنه كان فی أصل الخلقةهكذا فانه تلبیس وتغییر منهی عنه ـ وأما ما تزینت المرأةمن تحمیر الأیدی او الشفاه او العارضیین بما لا یلتبس بأصل الخلقة فانه لیس داخلا فی النهی عند جمهور العلماء ـ وأما قطع الاصبع الزائدة ونحوها لیس تغییرا لخق الله وانه من قبیل ازالة العیب أو مرض، فأجازه أكثر العلماء خلافا لبٰعضهمَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔والله تعالی اعلم
(بندہ محمود الحسن عفی عنہ )
دار الافتاٰء جامعہ دار العلوم کراچی
29/جمادی الاولی 1433 ھ
22/اپریل 2012 ء