فتویٰ نمبر:352
سوال: اگر کسی لڑکی کو اس کے سسرال والے کسی گناہ کے کام پر مجبور کریں جیسے بھنویں بنوانا شادی کے موقع پر یا شادی کے بعد تو اس طرح کرنا کہاں تک درست ہے
نیز اگر خوف ہو شوہر کے طلاق دینے کا یا شوہر سے ناچاقی کا یا پھر سسرال والوں کا زور ہو جس کی وجہ سے لڑکی یہ کام کرنے پر مجبور ہوجائے تو پھر لڑکی کو کیا کرنا چاہئے ۔نیز اگر کوئی لڑکی عالمہ ہو جس سے دین پر تہمت لگنے کا اندیشہ ہو تو پھر اسکے لئے ان حالات میں کیا حکم ہوگا۔
الجواب حامداً ومصلیاً
۱ صورتِ مسؤلہ میں اگر بھنووں کے بال بہت بڑھ گئے ہوں تو ان کو کترواکر کسی قدر کم کرنا جائز ہے لیکن خوبصورتی اور فیشن کے طورپر بھنووں کے بال نوچ کر باریک سی لکیر بنالینا اور دونوں بھنووں کے درمیان فاصلہ کرنا ناجائز اور موجبِ لعنت ہے۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے :
مشكاة المصابيح الناشر: المكتب الإسلامي – (2 / 505)
عن عبد الله بن مسعود قال : لعن الله الواشمات والمستوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے خوبصورتی کیلئے جسم گودنے اور گودوانے والیوں ،چہرہ کے بال نوچنے اور دانتوں کو باریک کرنے والیوں پر لعنت فرمائی ہے جوکہ اللہ تعالیٰ کی خلقت کو تبدیل کرنے والی ہیں (ص:۳۸۱)
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہ کے کام میں شوہر وغیرہ کا کہنا ماننے کے بجائے انہیں اس کا گناہ ہونا نرمی سے بتلادیا جائے (۱)
اور ہمت کے ساتھ اس گناہ سے بچنے کی کوشش کی جائے اللہ تعالیٰ ضرور کوئی راستہ نکالیں گے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا } [الطلاق : 2]
نیز ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
مشكاة المصابيح الناشر: المكتب الإسلامي – (2 / 341)
” لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق “(ص:۳۲۱ٰ)
البتہ ایسے موقعہ پر ترکی بترکی جواب دینے یا سخت رویہ اپنانے سے خاموش رہنا یا نرمی سے جواب دینا بہتر ہوتا ہے ۔لہذا اس کا خیال رکھا جائے ۔
ایک حدیث میں ہے کہ نرمی جب بھی کسی چیز میں آتی ہے تو اسکی وجہ سے وہ چیز عزیز ہوتی ہے اور اگر اس سے نرمی ختم ہوجائے تو وہ چیز عیب دار ہوجاتی ہے ۔