سورۃ الحجر کے اعدادوشمار زمانہ نزول ،وجہ تسمیہ

اعدادوشمار:
سورہ الحجرمصحف کی ترتیب کے لحاظ سے پندرھویں اور ترتیب نزولی کے لحاظ سے 52 ویں سورت ہے۔یہ سورت 6 رکوع 99 آیات،658 کلمات اور 2797حروف پرمشتمل ہے۔
زمانہ نزول:
اس سورت کی آیت نمبر ۹۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ابتدائی زمانے میں ناز ل ہوئی تھی کیونکہ اس آیت میں پہلی بار آپ کو کھل کر اسلام کی عام تبلیغ کا حکم دیاگیا ہے ۔ چار آیات کے علاوہ بقیہ تمام آیات مکی ہیں۔چار مدنی آیات یہ ہیں:وَلَقَدْ آتَيْناكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ [الحجر: 87]كَما أَنْزَلْنا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ [الحجر: 90، 91]وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ [الحجر: 24]
تفسير الألوسي = روح المعاني (7/ 249)
أخرج ابن مردويه عن ابن عباس وابن الزبير رضي الله تعالى عنهم أنها نزلت بمكة وروي ذلك عن قتادة.
ومجاهد، وفي مجمع البيان عن الحسن أنها مكية إلا قوله تعالى: وَلَقَدْ آتَيْناكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ [الحجر: 87] وقوله سبحانه: كَما أَنْزَلْنا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ [الحجر: 90، 91] ، وذكر الجلال السيوطي في الإتقان عن بعضهم استثناء الآية الأولى فقط ثم قال قلت: وينبغي استثناء قوله تعالى: وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ[الحجر: 24] الآية لما أخرج الترمذي. وغيره في سبب نزولها وإنها في صفوف الصلاة وعلى هذا فقول أبي حيان ومثله في تفسير الخازن أنها مكية بلا خلاف الظاهر في عدم الاستثناء ظاهر في قلة التتبع
وجہ تسمیہ:
سورت کا نام قوم ثمود کی بستیوں کے نام پررکھا گیا ہے جو حِجْر کہلاتی تھیں ،اوران کا ذکر سورت کی آیت نمبر : 80 میں آیا ہے۔
مرکزی موضوع:
اللہ خود اپنے دین کا محافظ ہے۔یہ اس سورت کامرکزی موضوع ہے۔جس کے دلائل یہ آیات ہیں:انانحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون، وحفظنھا من کل شیطن رجیم،ان عبادی لیس لک علیھم سلطان
خلاصہ مضامین
الر اور المر سے شروع ہونے والی پانچ سورتیں ہیں،جن میں یہ آخری سورت ہے۔پانچوں سورتوں کے شروع میں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالی کی طرف سے نازل کی ہوئی اورواضح اور برحق کتاب ہے،اس سورت میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ اس کی مخالفت کررہے ہیں ایک وقت آئے گا جب وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ اسلام لے آتے ۔{رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ} [الحجر: 2]
یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکبھی(معاذاللہ) مجنون کہتے او رکبھی کاہن قرار دیتے تھے۔ ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہانت کی حقیقت آیت نمبر:17اور 18میں بیان فرمائی گئی ہے کہ کہانت کی حقیقت یہ ہے کہ شیاطین آسمان کے قریب جاکر باتیں چرالیتے ہیں اور اپنے دوستوں کو جو انہی کی طرح شیطان صفت ہوتے ہیں ، کو سو جھوٹ ملاکر بتادیتے ہیں۔اب بتاؤآپ ﷺ کا شیطان اور شیطانی صفات سے کبھی کوئی تعلق رہا ہے؟
پھر یہ کہ آسمان سے باتیں چرانا پہلے ہوتا تھا آپﷺ کی بعثت کے بعد آسمانوں میں سخت پہرے لگادیے گئے ہیں اب جب بھی کوئی شیطان باتیں چرانے کی غرض سےوہاں جاتے ہیں ان پر شہاب ثاقب کی بارش ہوتی ہےاور انہیں وہیں بھسم کردیاجاتاہے۔{وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ (17) إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ} [الحجر: 17، 18]
ان لوگوں کے کفر کی اصل وجہ ان کا تکبر تھا اس لیے ابلیس کا واقعہ آیات نمبر:26تا 44میں بیان کیاگیا ہے کہ اس کے تکبر نے کس طرح ا س کو اللہ تعالی کی رحمت سے محروم کیا۔کفار کی عبرت کے لیے حضرت ابراہیم ،حضرت لوط،حضرت شعیب اور حضرت صالح علیہم السلام کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کافروں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی محنت بے کار جارہی ہے۔ ان کا فریضہ اتنا ہے کہ وہ مؤثر انداز میں تبلیغ کریں جو وہ بہترین طریقے پر انجام دے رہے ہیں نتائج کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے۔
( از گلدستہ قرآن)

اپنا تبصرہ بھیجیں