1۔زکوۃ جس طرح مال تجارت کی ہے اسی طرح زراعت کی بھی زکوۃ ہے۔{وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ} [البقرة: 267]
2۔صدقہ چھپاکر دینا افضل ہے البتہ جہاں سب کے سامنے دینے میں مصلحت ہو تو وہاں سب کے سامنے دینا بہتر ہے۔{إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ } [البقرة: 271]
3۔صدقات وزکوۃ کے زیادہ مستحق وہ لوگ ہیں جو علم کے حصول یاتبلیغ دین کی وجہ سے بالکل کاروبار نہیں کرسکتے۔اسی طرح سفید پوش غربا بھی صدقات کے زیادہ حق دار ہیں۔{لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا} [البقرة: 273]
4۔اخلاص کے ساتھ دیا گیا ایک روپیہ اللہ تعالی کے ہاں ستر روپے خرچ کرنے کے برابر ثواب رکھتا ہےجیسے گندم کا ایک دانہ زمین میں ڈالا جائے تو اس سے ایک خوشہ نکلتا ہے جس میں سات بالیں ہوتی ہیں اور ہر بال میں 100 دانے ہوتے ہیں۔کیونکہ وہ دانہ صلاحیت مند ہوتا ہے۔{مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ} [البقرة: 261]
5۔اخلاص ایسی چیز ہے جو اعمال کو قبولیت کے درجے پر لے جاتی ہے،جیسے زمین زرخیز ہوتو بیج ڈالنے کے بعد بارش ہوتے ہی پودے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں اور فصل کھڑی ہوجاتی ہے۔{وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ} [البقرة: 265]
6۔اس کے مقابلے میں ریاکاری کی نیت سے دیا گیا صدقہ بے کار اور بے فائدہ جاتا ہے جیسے کسی سخت چٹان پر زراعت کی کوشش کی جائے تو یہ کوشش بے ثمر ہوگی یہی مثال اخلاص سے عاری صدقے کی ہے۔{ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا} [البقرة: 264]
7۔صدقہ دینے والا سمجھتا ہے کہ میرا یہ صدقہ مجھے بہت کام آئے گا،میری آخرت تیار ہورہی ہے لیکن وہ آخر میں ریاکاری کربیٹھتا ہےیاوہ کافر ہوتا ہے جس سےتمام تر اجر وثواب ضائع ہوجاتا ہے چنانچہ جب دھوکے کی آنکھ بند ہوتی ہے تو اسے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔
جیسے ایک شخص زندگی بھر زراعت کرتا ہےاور باغات اور نہریں بنادیتا ہے اور یہ توقع رکھتا ہے کہ یہ سب میرے بڑھاپے اور ضرورت کے وقت کا سہارا بنیں گے لیکن اچانک رات کو آگ کا بگولا نمودار ہوتا ہے اور سب کچھ راکھ کردیتا ہے۔{أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ } [البقرة: 266]
8۔صدقہ زکوۃ نکالتے ہوئے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اچھامال دیاجائے ۔ایسامال جسے خود پسند نہ کرتے ہوں وہ اللہ کی راہ میں دینامناسب نہیں۔{وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ} [البقرة: 267]
9۔ زکوۃ وصدقات سے دل کاتزکیہ ہوتاہے اور مال میں برکت پیدا ہوتی ہے اس لیے خوش دلی سے صدقہ وزکوۃ دینی چاہیے،شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسان کو کنجوسی اور طرح طرح کے وسوسوں کی طرف لے جائے ،لیکن مؤمن کو اللہ تعالی کے وعدوں پر یقین رکھناچاہیے۔
10۔اس کے مقابلے میں سود ایسی چیز ہے کہ دیکھنے میں مال بڑھتاہے لیکن درحقیقت اس سے بے برکتی اور مال میں نحوست پیدا ہوجاتی ہے ، سود خور کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا اعلان جنگ ہے۔بسااوقات سود خوریا اس کی اولاد کی ذہنی کیفیت درست نہیں رہ پاتی ، قیامت میں بھی وہ مخبوط الحواس شخص کی طرح اٹھے گا۔
سود کوکاروبار پرقیاس کرناقطعاًدرست نہیں؛کیونکہ کاروبار میں نفع کسی چیز کو بیچ کرکمایاجاتاہے یاکسی چیزکاکرایہ لیاجاتا ہے جبکہ سود میں کوئی چیز نہ تو بیچی جاتی ہے نہ کرایہ پر دی جاتی ہے۔پیسہ پر نفع سود ہے اور اس کوکرایہ پر دینابھی درست نہیں۔{الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا۔۔۔ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ ۔۔۔فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ} [البقرة: 275 – 279]
Load/Hide Comments