سورہ کہف میں حضرت خضر اور موسی علیہما السلام کاواقعہ

ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کسی نے یہ سوال کیاکہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑاعالم کون ہے؟ چونکہ ہر پیغمبر اپنے وقت میں ہی سب سے بڑا عالم ہوتاہے ،اس لیے حضرت موسیٰ نے جواب میں یہی فرمادیاکہ میں ہی سب سے بڑا عالم ہوں ۔
اللہ تعالیٰ کویہ بات پسند نہیں آئی ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کویہ ہدایت دی گئی کہ اس سوال کاصحیح جواب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتےہیں کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ۔ نیزاللہ تعالیٰ نے چاہاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوعلم کے کچھ ایسے گوشوں سے روشناس کرائیں جوان کی واقفیت کے دائرے سے باہرتھے ۔ چنانچہ انہیں حکم دیاکہ وہ حضرت خضرعلیہ السلام کے پاس جائیں ۔
ان کوپتہ یہ بتایاگیاکہ جہاں دودریا ملتے ہیں وہاں تک سفرکریں اور اپنے ساتھ ایک مچھلی لے جائیں ۔ا یک موقع ایساآئے گا کہ وہ مچھلی گم ہوجائے گی ۔بس اسی جگہ انہیں حضرت خضر علیہ السلام مل جائیں گے ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلا م اپنے نوجوان شاگردحضرت یوشع علیہ السلام کوساتھ لے کرا س سفر پر ورانہ ہوئے ، جوبعدمیں خود پیغمبر بننے والےتھے ۔جب کافی سفر ہوگیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک چٹان پرپہنچ کر کچھ دیرکےلیےسوگئے اسی دوران وہ مچھلی جوایک زنبیل میں تھی ،وہاں سے کھسک کر دریامیں جاگری ،اورجس جگہ گری ،وہاں پانی میں سرنگ سی بن گئی جس میں جاکرمچھلی غائب ہوگئی۔
حضرت یوشع علیہ السلام اس وقت جاگ رہےتھےاورانہوں نے یہ عجیب واقعہ دیکھا، مگرچونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سوئے ہوئےتھے اس لیے ان کوجگانامناسب نہیں سمجھا۔بعدمیں جب حضرت موسیٰ علیہ السلام جاگ کرآگے روانہ ہوئے توحضرت یوشع علیہ السلام ان کوئی بات بتانابھول گئے ۔اوریاد اس وقت آیا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آگے چل کر ناشتہ مانگا۔بہرحال !واپس اس جگہ تشریف لائے تو حضرت خضر سے ملاقات ہوئی۔
حضرت خضر علیہ السلام تکوینیات کے عالم اور نبی ہیں،جس طرح ایک فرشتہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کے ذمہ مقرر کردہ امور سرانجام دیتا ہے حضرت خضر علیہ السلام کو بھی ایسی ہی ذمہ داریاں عطا کی جاتی ہیں۔جیسے عزرائیل اللہ کے حکم سےانسانوں کی روح نکال کر موت دے دیتا ہےاسی طرح حضرت خضر کو بھی اللہ کی وحی سے مختلف کام کرنے کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ کام اللہ کے حکم اور اس کے عالم تکوین کے نظام ومصالح کے تحت انجام پاتے ہیں اس لیے وہ ظاہر میں کتنے ہی خلاف شریعت معلوم ہوں لیکن حکم خداوندی کی وجہ سے ان کے لیے ایسا کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام نے شاگردی میں آنے کی درخواست کی۔حالانکہ موسی علیہ السلام افضل ہیں خضر علیہ السلام سےلیکن تحصیل علم کے لیے اس فرق کو حضرت موسی علیہ السلام نےکنارے رکھ دیا ۔حضرت خضر نے حضرت موسیٰ سے کہا:آپ میرے ساتھ چلتے ہوئے جو معاملات دیکھیں گے، اس پر خاموش نہیں رہ سکیں گے، سوال کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ حضرت موسیٰ نے خاموش رہنےکا وعدہ کیا، لیکن جب انہوں نے پے در پے تین عجیب و غریب واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے تو ہر بار مُہر سکوت توڑنے پر مجبور ہوگئے۔
پہلا واقعہ اس طرح پیش آیا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت خضرنے مل کرایک کشتی میں سفر کیا۔ دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچنے کے بعد خضرعلیہ السلام نے اس اچھی بھلی کشتی کاایک کونا توڑ کر اسے ناقص کر دیا۔ دوسرا واقعہ یہ تھا کہ ایک مقام پر کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ حضرت خضر نے آگے بڑھ کرایک بچے کو پکڑااور اسےقتل کردیا۔ ظاہر ہے یہ شرعی طور پر گناہ کبیرہ کاارتکاب تھا۔
تیسرا واقعہ یہ تھا کہ حضرت موسی علیہ السلام اورحضرت خضرعلیہ السلام نےایک بستی کے مکینوں سے کھانا طلب کیا تو کسی نے بھی ان کے سوال کواہمیت نہ دی اور ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ اچانک ایک شکستہ دیوار دکھائی دی جو معمولی سے دھکے سے گر سکتی تھی۔ حضرت خضرعلیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: آئیے ہم یہ دیوارتعمیر کر دیں، چنانچہ دونوں اصحاب نے وہ دیوار از سر نو کھڑی کر دی۔
حضرت موسیٰ کے لیے یہ تیسرا واقعہ بھی بہت انوکھا تھا، ضبط نہ کر سکےاور پوچھنے پر مجبور ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت خضرعلیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: اب آپ مزید میرے ساتھ نہیں چل سکیں گے، البتہ جدا ہونے سے پہلے ان واقعات کاپس منظر واضح کر دیتا ہوں۔
وہ کشتی جن لوگوں کی تھی، وہ اس کے ذریعے مسافروں کو دریا کے آر پار لے جا کر مزدوری حاصل کرتے تھے۔ یہ ان کی کمائی کاواحد ذریعہ تھی۔ کشتی بہت اچھی حالت میں تھی۔ دریا کے پارایک ظالم بادشاہ کی حکومت تھی۔ وہ ان غریب لوگوں سے یہ کشتی چھین لیتا۔ مَیں نے اسے ناقص کر دیا تاکہ وہ کسی حکومتی کارندےکی نظر میں نہ آئے۔ اسے ناکارہ سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دے۔
جس بچے کو ٹھکانے لگا دیا، اس کاپس منظر یہ ہے کہ وہ بچہ بڑا ہو کر اپنے نیک والدین کی رسوائی کاباعث بنتا، اب اللہ تعالیٰ ان کو اس کانعم البدل عطا کریں گے جو ان کے لیے باعثِ رحمت و برکت بنے گا۔جو دیوار گرا چاہتی تھی، اس کے نیچے دراصل کچھ یتیموں کاخزانہ دبا ہوا تھا۔ دیوار گر جاتی تو لوگ وہ خزانہ لوٹ لیتے۔ اب دیوارکی تعمیر نو سے وہ خزانہ اس وقت تک محفوظ رہے گا، جب تک اس کے وارث بچے بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچ جاتے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کوجویہ سفرکراگیا۔اس کاایک مقصدتویہ ادب سکھاناتھاکہ اپنے آپ کوسب سے بڑاعالم کہناکسی کوزیب نہیں دیتا۔ علم توایک ناپید کنار سمندرہے،اورکچھ نہیں کہاجاسکتا کہ کون ساعلم کس کے پاس زیادہ ہے ۔ا وردوسرامقصد یہ تھاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خود آنکھوں سےا س بات کی ایک جھلک دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اورعلم سےاس کائنات کانظام کس طرح چلارہاہے ۔اس کائنات میں بہت سے ایسے واقعات روزمرہ انسان کے سامنے آتے رہتےہیں ، جن کامقصد اس کی سمجھ میں نہیں آتا ، حالانکہ کوئی واقعہ اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی حکمت کے بغیر نہیں ہوتا۔ انسان کی نظرچونکہ محدودہے ،اس لیے وہ اس حکمت کوبسااوقات نہیں سمجھتا،لیکن جس قادرمطلق کے ہاتھ میں پوری کائنات کی باگ دوڑہے وہی جانتاہے کہ کس وقت کیاواقعہ پیش آناچاہیے ۔
شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے “آسان ترجمۂ قرآن” میں اس واقعے سے اخذ ہونے والے نتائج ان الفاظ میں تحریر فرمائے ہیں:
” حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام سے ملوانے اور یہ واقعات دکھانے کا اصل مقصد ایک اہم حقیقت کا مشاہدہ کرانا تھااور اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے قرآن ِ کریم نے یہ واقعہ ہمارے لیے بیان فرمایا ہے ۔ا سلامی شریعت کی رُو سے کسی کے لیے یہ بالکل جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کی ملکیت میں اُس کی اجازت کے بغیر کوئی تصرف کرے، خاص طور پر اس کی تو ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی کہ اُس کی ملکیت کوکوئی نقصان پہنچادے ، چاہے وہ نقصان خود مالک کے فائدے کی نیت ہی سے پہنچایا گیا ہو، لیکن حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی والوں کی اجازت کے بغیر اس کا تختہ نکال دیا۔اسی طرح کسی بے گناہ کو قتل کرنا شریعت میں انتہائی سنگین جرم ہے ، خاص طور پر اس کی تو ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی کہ اُس کی ملکیت کو کوئی نقصان پہنچادے ، چاہے وہ نقصان خود مالک کے فائدے کی نیت ہی سے پہنچایا گیا ہو، لیکن حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی والوں کی اجازت کے بغیر اس کا تختہ نکال دیا۔ا سی طرح کسی بے گناہ کو قتل کرنا شریعت میں انتہائی سنگین جرم ہے ، خاص طور پر کسی نابالغ لڑکے کو قتل کرنا تو حالتِ جنگ میں بھی جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر یہ معلوم ہوکہ لڑکا بڑا ہوکر کوئی فساد مچائے گا، تب بھی اس وقت اُسے قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ا س کے باوجود حضرت خضر علیہ السلام نے لڑکے کو قتل کردیا، اور چونکہ یہ دونوں باتیں شریعت میں ناجائز تھیں ، اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام ان پر خاموش نہیں رہ سکے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے شریعت کے بالکل خلاف یہ کام کیسے کیے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس کائنات میں جتنے واقعات ہوتے ہیں، چاہے وہ ہماری نظر میں اچھے معلوم ہوتے ہوں یا بُرے ،ا ن کا تعلق ایک ایسے جہاں سے ہے جو ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہے ،ا ور جسے اِصطلاح میں ” عالم تکوین “ کہاجاتا ہے ، جو براہِ راست اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اُس کے تکوینی اَحکام کے ذریعے کنٹرول ہورہا ہے ۔کس شخص کو کتنے عرصے زندہ رہنا ہے؟ اور کب اُس کی موت واقع ہوگی؟ وہ کتنے عرصے صحت مند رہے گا ،اور کب بیمار ہوجائے گا ؟ اُسے کب کون سا روزگار نصیب ہوگا ؟ اور اُس کے ذریعےوہ کتنی روزی کماسکے گا ؟ اس قسم کے سارے معاملات براہِ راست طے فرماتے ہیں ،ا ور ان فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کچھ کارندے مقرر فرمارکھے ہیں جو ہماری نگاہوں سے پوشیدہ رہ کر اللہ تعالیٰ کے ان تکوینی اَحکام کی تعمیل کرتے ہیں ۔
مثلاً جب اللہ تعالیٰ نے یہ طے فرمالیا کہ فلاں شخص کی موت کا وقت آگیا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کا فرشتہ اُس شخص کی رُوح قبض کرنے کے لیے پہنچ جاتا ہے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کے تکوینی حکم کی تعمیل میں کسی کی موت واقع کررہا ہوتا ہے تووہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کرتا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے کی جان لے، لیکن جس فرشتے کو اللہ تعالیٰ نے اسی کام پر مقرر فرمایا ہے ،ا ُس کے لیے یہ کوئی جرم نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے تکوینی اَحکام کو نافذ کرنے کے لیے عام طور سے فرشتے مقرر ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں ، یہ فریضہ سونپ سکتے ہیں۔
حضرت خضر علیہ السلام اگرچہ انسان تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو فرشتوں کی طرح عالمِ تکوین کا پیغمبر بنادیا تھا ۔ا نہوں نے جو کچھ کیا ، اللہ تعالیٰ کے تکوینی حکم کے ذریعے کیا۔ لہذا جس طرح موت کے فرشتے پر یہ اعتراض نہیں کیاجاسکتا کہ اُس نے ایک بے گناہ کی جان لے کر گناہ کا اِرتکاب کیا ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی بات کے لیے مامورتھا، اسی طرح حضرت خضر علیہ السلام بھی اُس کشتی کو عیب لگانے اور اُس لڑکے کوقتل کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکوینی طور پر مأمور تھے ، اس لیے ا ن کا یہ عمل کوئی جرم نہیں تھا۔
البتہ ہم لوگ دُنیا میں رہتے ہوئے شریعت کے اَحکام کے پابند ہیں ، اور ہمیں عالمِ تکوین کا نہ علم عطا کیا گیا ہے ، اور نہ اس عالم سے متعلق ہمیں کوئی ذمہ داری سُونپی گئی ہے ، اس لیے ہم اُنہی اَحکام کے مکلّف ہیں جو اسی جیتی جاگتی زندگی مین ہمیں آنکھوں سے نظر آتے ہیں ۔
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو اسی جیتی جاگتی دُنیا کے پیغمبر تھے ،ا ور جوشریعت ان کو دی گئی تھی،ا ُسی کے پابند تھے ،ا س لیے وہ نہ حضرت خضر علیہ السلام کی ان باتوں پر خاموش رہ سکے ، اور نہ آئندہ ان کے ساتھ چل سکے ۔ان تین واقعات کے بعد وہ سمجھ گئے کہ ان صاحب کا دائرہ کار میرے دائرہ کار سے بالکل الگ ہے، اور میں ان کے ساتھ نہیں چل سکتا ۔البتہ اس طرح اُنہیں یہ حقیقت کھلی آنکھوں دِکھادی گئی کہ اس کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے ،ا ُس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی لامحدود حکمت کارفرماہے۔ اگرہمیں کسی واقعے کی وجہ سمجھ میں نہ آئے تواس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ جس عالمِ تکوین میں اُس کی حکمت واضح ہوسکتی ہے ، وہ ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔
روزمرہ کی زندگی میں ہمیں بہت سے منظر ایسے نظرآتے ہیں جن پر ہمارا دِل دُکھتا ہے ، بہت سے انسانوں کی مظلومیت کو دیکھ کر بعض اوقات دِل میں شکوک وشبہات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام کے ذریعے عالم ِ تکوین کی ایک جھلک دکھا کر ایک مؤمن کے لیے ایسے شکوک وشبہات کا خاتمہ کردیا گیا ہے ۔
البتہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عالم تکوین اور اس کے کارندے ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں ۔ حضرت خضرعلیہ السلام بھی اسی طرح پوشیدہ تھے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عالمِ تکوین کی ایک جھلک دِکھانے کے لیے وحی کے ذریعے ان کا پتہ بتادیا گیا ۔ا ب جبکہ وحی کا دروازہ بند ہوچکا ہے، کسی کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ یقینی طور پر تکوین کے کسی کارندے تک رسائی حاصل کرسکے اور نہ نظر آنے والی دُنیا میں کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ تکوین کا کارندہ ہےا ور اُسے تکوینی اختیارات حاصل ہیں،لہذا جن لوگوں نے حضرت خضر علیہ السلام کے واقعےکی بنیاد پر شریعت کے ظاہری اَحکام کی خلاف ورزی کوجائز قرار دینے کی کوشش کی ہے، انہوں نے سراسر گمراہی پھیلائی ہے۔ مثلاً بعض نام ونہاد درویشوں کا تصوف وغیرہ کا نام لے کر یہ کہنا کہ : ” شریعت کے اَحکام ظاہر بیں لوگوں کے لیے ہیں اور ہم ان سے مستثنیٰ ہیں “ پرلے درجے کی گمراہی ہے۔ آج کسی کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے جس سے و ہ شریعت کے اَحکام سے مستثنیٰ ہوسکے ۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں