سورہ کہف میں دوباغ والے کاواقعہ کا ذکر

اللہ تعالیٰ نےدوبھائیوں کاواقعہ بیان فرمایا ہے جن میں سے ایک مال دار تھااور دوسرا نیک، مؤحد اورمالی لحاظ سے متوسط ۔جوبھائی مال دار تھا اس کے پاس خوب صورت اور ہرے بھرےدوباغات تھے،جاہ وخدم کی بھی کمی نہ تھی، لیکن اس کواپنی دولت پربڑاناز اورگھمنڈ تھا ،شرک کیاکرتا تھا اور وہ قیامت کاقائل بھی نہ تھا، سمجھتاتھاکہ یہ مال ودولت اس کے پاس ہمیشہ رہے گااور بالفرض قیامت قائم ہوئی تو قیامت میں بھی اس کاانجام اچھاہوگا۔{وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا رَجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْهُ شَيْئًا وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَرًا وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ۔۔۔۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَى مَا أَنْفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَالَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا وَلَمْ تَكُنْ لَهُ فِئَةٌ يَنْصُرُونَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا} [الكهف: 32 – 43]
اس کے ان جرائم کی پاداش میں اللہ تعالی نے اس کے باغات کوتباہ کردیا ،اس کامال اور اس کے خدام کوئی چیز اس کے کام نہ آئی ۔جس کودیکھ کر وہ افسوس ہی کرتا رہ گیا اور کہنے لگا کہ کاش! میں شرک نہ کرتا ۔
حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم اپنی تفسیر “آسان ترجمۂ قرآن میں تحریر فرماتے ہیں:
”جن دوآدمیوں کایہاں ذکر فرمایاگیاہے ان کی کوئی تفصیل کسی مستند مرفوع روایت میں موجودنہیں ہے ۔
البتہ بعض مفسرین نے کچھ روایتوں کی بنیاد پر یہ کہاہے کہ بنی اسرائیل میں سے تھے ، اورانہیں اپنےباپ سے وراثت میں بڑی دولت ہاتھ آئی تھی ۔ان میں سے ایک نے کافرہوکراسی دولت سے دل لگالیااوردوسرے نے اپنی دولت کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیاا وراس کی وجہ سے اس کی دولت پہلے شخص کے مقابلے میں گنتی میں کم رہ گئی لیکن آخر کار کافر شخص کی دولت پر آفت آگئی اوراسے حسرت کے سواکچھ حاصل نہیں ہوا۔“
( از گلدستہ قرآن)

اپنا تبصرہ بھیجیں