سورہ کہف کا خلاصہ مضامین

اس سورت میں پانچ واقعات اور ایک مثال مذکور ہے۔اصحاب کہف،دوباغوں کےمالک، آدم وابلیس، حضرت خضر وموسی اور ذوالقرنین؛یہ پانچ واقعات مذکور ہیں جبکہ مثالوں میں ایک مثال دنیا کی زندگی کی ہے۔ عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو جو خد اکا بیٹا قرار دے رکھا تھا اس سورت کے شروع میں بطور خاص اس کی تردید ہے ،جبکہ سورت کےآخر میں تمام مشرکین کو توحید اور دین حق کی دعوت دی گئی ہے۔
التفسير المظهري (6/ 4)
وهى مائة واحدى عشرة اية بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ رب يسّر وتمّم بخير اخرج ابن جرير من طريق إسحاق عن شيخ من اهل مصر عن عكرمة عن ابن عباس قال بعثت قريش النضر بن الحارث وعقبة بن ابى معيط الى أحبار اليهود بالمدينة- فقالوا سلوهم عن محمد وصفوا لهم صفته واخبروهم بقوله فانهم اهل الكتاب الاول- وعندهم ما ليس عندنا من علم الأنبياء- فخرجا حتى أتيا المدينة فسالا أحبار اليهود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم- ووصفا لهم امره وبعض قوله فقالوا لهم سلوه عن ثلاث فان أخبركم بهن فهو نبى مرسل- وان لم يفعل فالرجل متقوّل
حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم فرماتے ہیں:
”حافظ ابن جریر طبری ؒ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس سورت کا شان ِنزول یہ نقل کیا ہے کہ مکہ مکرمہ کے کچھ سرداروں نے دو آدمی مدینہ منورہ کے یہودی علما کے پاس یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجے کہ تورات اورانجیل کے یہ علما آنحضرت ﷺ کے دعوائے نبوت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
یہودی علما نے ان سے کہا کہ آپ حضرت محمد مصطفی ﷺ سے تین سوالات کیجیے۔ اگر وہ ان کے صحیح جواب نہ دے سکیں تو ا س کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی نبوت کا دعوی صحیح نہیں ۔
پہلا سوال یہ تھا کہ ان نوجوانوں کا وہ عجیب واقعہ بیان کریں جو کسی زمانے میں شرک سے بچنے کے لیے اپنے شہر سے نکل کر کسی غار میں چھپ گئے تھے۔دوسرے اس شخص کا حال بتائیں جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا۔تیسرے ان سے پوچھیں کے روح کی حقیقت کیا ہے ؟
چنانچہ یہ دونوں شخص مکہ مکرمہ واپس آئے او راپنی برادری کے لوگوں کو ساتھ لے کر انہوں نے آنحضرت ﷺ سے یہ تین سوال پوچھے۔تیسرے سوال کا جواب تو پچھلی سورت (۱۵۔۸۵) میں آچکا ہےاو رپہلےدو سوالوں کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی جس میں غار میں چھپنے والے نوجوانوں کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایاگیا ہے۔ دوسرے سوال کے جواب میں سورت کے آخر میں ذوالقرنین کا واقعہ بیان فرمایاگیا ہے جنہوں مشرق ومغرب کا سفر کیا تھا ۔اس کے علاوہ اسی سورت میں حضرت موسی علیہ السلام کا وہ واقعہ بھی بیان فرمایاگیا ہے جس میں وہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس تشریف لے گئے تھے او رکچھ عرصہ ان کی معیت میں سفر کیا تھا ۔“(آسان ترجمہ قرآن)
( از گلدستہ قرآن)

اپنا تبصرہ بھیجیں