1۔حکمران امانت دار اور باصلاحیت ہونا چاہیے۔{إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ} [البقرة: 247]
2۔حکمرانی صرف مال داروں کا حق نہیں ، غریب طبقے میں کوئی حکمرانی کا اہل ہے تو اسے بھی یہ منصب عطا کیا جاسکتا ہے۔{قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ} [البقرة: 247]
3۔اسلامی حکومت کا ایک اہم فریضہ جہاد ہے۔جہادکا مقصد دین کی سربلندی اور کفر کی طاقت کو مغلوب اورختم کرنا ہے۔{وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ} [البقرة: 251]
4۔جہاد فرض ہے۔جہاد کی فرضیت کا منکر کافر ہے۔وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ (البقرة: 190۔195)
5۔شہید کو مردہ نہ کہو، شہید زندہ ہوتا ہے۔{وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ} [البقرة: 154]
6۔جہادِ دفاعی جائزہی نہیں بلکہ فرض ہے جس کے دلائل آئندہ پاروں میں آئیں گے۔البتہ اس پارے میں صرف جہاد دفاعی کا ذکر ہے۔ وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ (البقرة: 190۔195)
7۔حرم شریف میں قتال میں پہل نہ کیاجائے بلکہ کسی اور طرح ان کو حرم سےنکلنے پر مجبور کیا جائے گالیکن اگر کسی طریقے سے بھی وہ اپنی شرارت سے باز نہ آئیں تب قتال جائز ہے ۔ وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ
8۔اگر حرم میں کوئی آدمی دوسرے کو قتل کرنے لگےتواس کی مدافعت میں دہشت گرد کو قتل کرنا جائز ہے۔
Load/Hide Comments