1۔آدم و ابلیس کامشہور واقعہ(آیت 31 تا 39)
2۔ غرق فرعون کاتذکرہ (آیت 49 تا50)
3۔حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر اعتکاف کے لیے تشریف لے گئے توپیچھے بنی اسرائیل سامری جادوگر کے ورغلانے سےبچھڑے کی پوجا میں مبتلا ہوگئے۔ (آیت 51 تا54)
4۔بنی اسرائیل نے تورات کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ جب تک اللہ تعالی کو ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں ہم نہ مانیں گے۔(آیت 55)
5۔وادی تیہ میں من وسلوی کا نزول ہوتا رہا۔(آیت 57)
6۔بستی میں سجدہ کی حالت میں حطۃ کہتے ہوئے داخل ہونے کا کہا گیا تو وہ حنطۃ کہتے ہوئےسرین کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے۔(آیت 58،59)
7۔حضرت موسی علیہ السلام کے وقت میں بنی اسرائیل کو پانی کی ضرورت پڑی تو بحکم خداوندی زمین پر عصامارنے سےبارہ قبیلوں کے لیے بارہ چشمے ظاہر ہوئے۔(آیت 60)
8۔من وسلوی کھاکر اکتاگئے تو دال سبزیاں مانگنے لگے۔(آیت 61)
9۔ہفتے کے دن شکار منع ہونے کے باوجود حیلہ بازیاں کرکے شکار کرنے لگےاس پر انہیں بندر خنزیر بنادیا گیا۔(آیت 65،66)
10۔ بنی اسرائیل کے ایک مالدار شخص عامیل کواس کے دوست نے قتل کرکے الزام کسی اور پر ڈال دیا۔اصل قاتل کی شناخت کے لیے گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیالیکن بنی اسرائیل نے خوامخواہ کے سوالات کرکے سیدھے سادے حکم کو مشکل بنادیا۔(آیت نمبر67 تا73)
11۔یہودی علما نے اپنی شریعت میں تحریف کی اور اپنے عوام کو بے وقوف بناتے رہے کہ یہی توریت کا حکم ہے۔(آیت 78تا 82)
12۔یہودی کچھ احکام پر عمل کرتے کچھ پر نہ کرتے اس کی مثالیں۔(آیت 83تا 86)
13۔یہودی دعائیں کرتے تھے کہ آخری نبی تشریف لائیں گے تو ہم ان کاساتھ دیں گے اور ان کے ساتھ مل کر ظالموں کا خاتمہ کریں گے لیکن جب وہ نبی آخر الزمان ﷺ تشریف لائے تو حسد وعصبیت کی بنا پر انہیں ماننے سے انکار کردیا۔(آیت 88 تا 90)
14۔یہودی موت سے بہت ڈرتے ہیں۔(آیت 94 تا 96)
15۔یہودی حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اپنا دشمن کہاکرتے تھے۔(آیت 97،98)
16۔ہاروت ماروت کا تذکرہ وہ نبوت اور جادوگری میں دنیا کو فرق بتانے کے لیے آئے تھے۔یہودیوں نے ان سے جادو سیکھا اور اس کا غلط استعمال کیا۔ (آیت 102، 103)
17۔یہودیوں کی شان نبوتﷺ میں گستاخیوں کاذکرکہ وہ آپﷺ کو راعنا کہہ کر پکارتے تھے اور 0اس کا غلط تلفظ ادا کرتے تھے جس سے اس کے معنی بدل جاتے تھے۔(آیت 104)
18۔یہود نے نسخ پر اعتراض کیا تو اس کا جواب دیا گیا کہ نسخ ہر شریعت میں ہوا ہے اور نسخ کے بعد والا حکم آنے والے وقتوں کے لیے زیادہ مصالح پر مبنی ہوتا ہے۔ (آیت 106)
19۔یہود ونصاری اور مشرکین ان تین گروہوں میں سے ہر ایک خود کو جنت کا ٹھیکے دار سمجھتا اور دوسرے کو کافر کہتاتھا ۔(آیت 113)
20۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی متعددطریقوں سے آزمایا ، دنیا نے دیکھا کہ وہ اس میں کامیاب ہوئے،امتحان میں کامیابی پر اللہ تعالی نے قیامت تک کے لیےانہیں مذاہب عالم کاروحانی پیشوابنادیا۔
21۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اوربڑے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہما السلام نے مل کر کعبۃ اللہ کی ازسرنوتعمیر کی، تعمیر کعبہ کے بعد متعدد دعائیں کیں جنہیں اللہ تعالی نے قبول فرمایا۔
22۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے 12 بیٹوں کو توحید اوراسلام پر قائم رہنے کی وصیت کی تھی۔اس کاتذکرہ (آیت 124 تا133) میں موجود ہے۔
Load/Hide Comments