فتویٰ نمبر:576
سوال:یہ جوتعلیم یافتہ سراغ رساں کتے چوری معلوم کرنےکےلیے لائے جاتے ہیں۔کیاان کے ﺫریعے چور پر چوری کا دعوی کرنا اور اس سے چوری لینا جائز ہوگا یا صرف قرائن کے حد تک یہ معاملہ ہے؟
جواب:سراغ رساں کتّوں کی حیثیت گواہی یا قطعی ثبوت کی نہیں ہےبلکہ ان کی حیثیت ان قرائن کی سی ہے جو کسی واقعہ میں پائے جاتے ہیں اور ان کی بنیاد پر تفتیش کو آگے بڑھا کر چور سے اقرار لیا جاسکتا ہے،یا گواہ تلاش کر کے اس کے خلاف بینہ(گواہ) قائم کیا جا سکتا ہے،مگر صرف قرائن کی بنیاد پر کسی کو ملزَم تو سمجھنے کی گنجائش ہو سکتی ہے،لیکن صرف قرائن کی وجہ سے مجرم قرار دے کر اس پر سزا جاری نہیں کی جا سکتی،جب تک کہ اس کے اس جرم پر شرعی شہادت (دوعادل مردیا ایک عادل مرد اور دو عادل عورتوں کی گواہی)قائم نہ ہو جائے یا وہ شخص خود اقرار نہ کر لے کہ میں نے یہ جرم کیا ہے۔
تاہم اگرمتّہم شخص کے خلاف کوئی ایسا قرینہ پایا جائے جو قطعی ہو یعنی یقین کا فائدہ دےاور وہ شرعی شہادت کے خلاف بھی نہ ہو تو(صرف) عدالت جرم کی نوعیت کو دیکھ کر متہم شخص کو تعزیرًا مناسب سزا دے سکتی ہے۔عام لوگوں کو اس سزا کے جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
سنن ابن ماجه (2/ 855)
عن القاسم بن محمد قالض ذكر ابن عباس المتلاعنين . فقال له ابن شداد هي التي قال لها رسول الله صلى الله عليه و سلم : ( لو كنت راجما أحدا بغير بينة لرجمتها ؟ ) فقال ابن عباس تلك امرأة أعلنت في الصحيحين وغيرهما
قال الشيخ الألباني : صحيح
الفتاوى الهندية (2/ 171)
السرقة إنما تظهر بأحد الأمرين إما بالبينة أو بالإقرار
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ(اخذالحکم بالقرائن)
الْقَرَائِنُ الْقَاطِعَةُ وَغَيْرُ الْقَاطِعَةِ :
3 – إِنَّ مِنَ الْقَرَائِنِ مَا يَقْوَى حَتَّى يُفِيدَ الْقَطْعَ ، وَمِنْهَا مَا يَضْعُفُ (3) ، وَيُمَثِّلُونَ لِحَالَةِ الْقَطْعِ بِمُشَاهَدَةِ شَخْصٍ خَارِجٍ مِنْ دَارٍ خَالِيَةٍ خَائِفًا مَدْهُوشًا فِي يَدِهِ سِكِّينٌ مُلَوَّثَةٌ بِالدَّمِ ، فَلَمَّا وَقَعَ الدُّخُولُ لِلدَّارِ رُئِيَ فِيهَا شَخْصٌ مَذْبُوحٌ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ يَتَشَخَّطُ فِي دِمَائِهِ ، فَلا يُشْتَبَهُ هُنَا فِي كَوْنِ ذَلِكَ الشَّخْصِ هُوَ الْقَاتِلُ ، لِوُجُودِ هَذِهِ الْقَرِينَةِ الْقَاطِعَةِ (4) .
وَأَمَّا الْقَرِينَةُ غَيْرُ قَطْعِيَّةِ الدَّلالَةِ وَلَكِنَّهَا ظَنِّيَّةٌ أَغْلَبِيَّةٌ ، وَمِنْهَا الْقَرَائِنُ الْعُرْفِيَّةُ أَوِ الْمُسْتَنْبَطَةُ مِنْ الْمُتَخَاصِمَيْنِ مَعَ يَمِينِهِ مَتَى اقْتَنَعَ بِهَا الْقَاضِي وَلَمْ يَثْبُتْ خِلافُهَا . وَالْمَقْصُودُ أَنَّ الشَّرِيعَةَ لا تَرُدُّ حَقًّا وَلا تُكَذِّبُ دَلِيلا وَلا تُبْطِلُ أَمَارَةً صَحِيحَةً ، هَذَا وَقَدْ دَرَجَتْ مَجَلَّةُ الأَحْكَامِ الْعَدْلِيَّةِ عَلَى اعْتِبَارِ الْقَرِينَةِ الْقَاطِعَةِ أَحَدَ أَسْبَابِ الْحُكْمِ فِي الْمَادَّةِ ( 1740 ) وَعَرَّفَتْهَا بِأَنَّهَا الأَمَارَةُ الْبَالِغَةُ حَدَّ الْيَقِينِ
البحر الرائق (7/ 205)