سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته!
تراویح بھی سنت مؤکدہ ہے پھر اس کا معاملہ دیگر سنت مؤکدہ کی طرح کیوں نہیں؟
کہ باقی سنت مؤکدہ تو متعین ہیں جو 2 رکعات پڑھنی اور کون سی 4پھر تراویح میں 2 اور چار ہر دو طرح پڑھنے کی اجازت کیوں ہے؟
سنت 4 رکعات والی بھولے سے 2 پر سلام پھیرا بات کر لی تو اب پوری 4 لوٹانی ہیں۔ لیکن تراویح کی 4 کی نیت باندھی دو پر سلام پھیر لیا تو مستقل 2 ادا ہو جاتی ہیں اب صرف 2 اور پڑھیں گے 4 نہیں لوٹانی؟
ہر دو طرح کی سنتوں میں فرق کیوں ہے؟ تراویح کے ساتھ نوافل والا معاملہ کیوں ہے؟
الجواب حامدا ومصلیا
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته!
دونوں سنتوں میں فرق اس وجہ سے ہے کہ عام طور پر نمازوں میں دو سنت کے بعد پھر دو سنت نہیں ہیں اس لیے دو ہی پڑھی جاتی ہیں؛ جبکہ تراویح میں مسلسل دو دو سنت ہیں اس لیے ساتھ ملانے والی گنجائش یہاں موجود ہے اس پر عمل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ خلاف سنت ہے اس سے بچنا چاہیے۔
اگر چار رکعت کی نیت کرکے دو رکعت پر سلام پھیرا تو چار پڑھنی ہیں کیونکہ چار ایک ساتھ مشروع ہیں تراویح میں اصل کے اعتبار سے دو دو ہیں اس لیے جب دو ادا ہوگئیں تو باقی دو کا اعادہ ہوگا کیونکہ یہ دو دو مشروع ہیں۔
تراویح کی نماز میں امتِ مسلمہ کا توارث اسی پر چلا آیا ہے کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیرا جائے اور دس سلام کے ساتھ بیس رکعت مکمل کی جائے، لیکن اگر کوئی شخص چار چار رکعت پر سلام پھیرتا ہے اور قعدہ اولیٰ میں بیٹھتا ہو تو اس کی تراویح درست ہو جائے گی، لیکن قصداً ایسا کرنا مکروہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
في الدر المختار:
“(وهي عشرون ركعةً) حكمته مساواة المكمل للمكمل (بعشر تسليمات) فلو فعلها بتسليمة؛ فإن قعد لكل شفع صحت بكراهة وإلا نابت عن شفع واحد، به يفتى”.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 45))
“(قوله: وصحت بكراهة) أي صحت عن الكل. وتكره إن تعمد، وهذا هو الصحيح، كما في الحلية عن النصاب وخزانة الفتاوى. خلافاً لما في المنية من عدم الكراهة، فإنه لايخفى ما فيه لمخالفته المتوارث”.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 45))
“عن أبي أيوب ، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي قبل الظهر أربعا إذا زالت الشمس ، لا يفصل بينهن بتسليم ، وقال : إن أبواب السماء تفتح إذا زالت الشمس”.
(سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ2/236
سنن ابی داود،باب الاربع قبل الظہیر وبعدھا 1/490)
فتاویٰ شامی میں ہے:
” ( وسن ) مؤكدا ( أربع قبل الظهر و ) أربع قبل ( الجمعة و ) أربع ( بعدها بتسليمة ) فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة ولذا لو نذرها لا يخرج عنه بستليمتين وبعكسه يخرج”. (2/12)
فتاویٰ شامی میں ہے:
“ويستحب أربع قبل العصر وقبل العشاء وبعدها بتسليمة ) وإن شاء ركعتين”.
(2/13 باب الوتروالنوافل)
واللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ: 20/10/1440
عیسوی تاریخ: 23/6/2019
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم