صلح میں لڑکی دینے کی ” سورہ ” رسم کا حکم

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:78

سوال:  ہمارے علاقوں  میں جب  دو فریقوں  میں قتل مقاتلے  کا واقعہ  ہوجانے کے بعد  صلح کی بات  آتی ہے، تو منقول فریق کے لوگ قاتل سے صلح  میں لڑکی  ( بہن ، بھتیجی وغیرہ ) مانگتے ہیں ۔ کبھی ایک لڑکی کبھی دو لڑکیاں  اور اس کو یہاں کے عرف میں ” سورہ ” کہاجاتا ہے  ،ا س کے بغیر وہ صلح پر تیار نہیں  ہوتے ۔

اکثر سورہ میں  دی جانے والی لڑکی چھوٹی ہوتی ہیں ۔ اگر بڑی بھی ہوں تو وہ اس  رشتے  پر بالکل راضی نہیں ہوتی ، پھر  جب اس  کی شادی  ہوجاتی ہے تو اکثر مقتول  کا  گھرانہ  اس پر ظلم کرتے ہیں اور اس کو مقتول  فرد کا عوض شمار کرتے ہیں۔ شرعی لحاظ سے صلح میں لڑکی دینا جائز ہے یا نہیں اور سورہ رسم  درست ہے یا نہیں ؟

عنایت اللہ شاہ ہاشمی 

چئر مین  المبارک  ویلفئر سوسائٹی

 ( اسلامی ٹرسٹ )

الجواب حامداومصلیا

” سورہ ” کی شریعت  میں  کوئی اصل نہیں ، یہ محض  ایک قبیح رسم ہے جو جہالت پر مبنی ہے اور یہ متعدد شرعی مفاسد پر مشتمل   ہے ، مثلا:

  • آزاد عورت شرعاً مال نہیں ، جبکہ شریعت نے بدل صلح یا دیت  میں مال کی ادائیگی ک ضروری قرار دیاہے ،لہذا اصلح  ککے طور پر  لڑکی دینا بالکل ناجائز اور حرام ہے ۔
  • مذکورہ رسم میں صلح کے طور پر جو نکاح کیا جاتا ہے  اگر یہ نکاح عاقلہ بالغہ کا ہو اور  اس کی رضامندی کے بغیر یہ نکاح   کیاگیاہو جیسا کہ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے  تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا اور یہ مرد اور عورت  جب تک ساتھ رہیں گے  اور میاں بیوی والے تعلقات  قائم کریں گے ، حرام کاری میں مبتلا رہیں گے ،اور صلح  کرانے اور کرنے والے بھی  اس قبیح گناہ  میں شریک ہوں گے، حرام کاری میں مبتلا رہیں گے ، اور صلح  کرانے اور کرنے والے  بھی اس قبیح گناہ میں شریک ہوں گے ، اور اگر نابالغہ لڑکی کا نکاح ہو اور ولی نے اس کی مصلحت  کو مد نظر  رکھے بغیر  محض دشمن سے جان  چھڑانے اور اپنے  مفاد کی خاطر  بچی کی زندگی  داؤ پر لگا کر یہ نکاح  کیا ہو، جیسا کہ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے  تو یہ نکاح  غیر کفو میں یا مہر مثل سے کم ہونے کی صورت میں  شرعاً  منعقد   ہی  نہیں ہوتا ،ا گرچہ  باپ یا دادا نے یہ نکاح کیاہو۔
  • عورت ایک دشمن  کے گھر چلی جاتی ہے ، جس سے عموماً مختلف مسائل پیدا ہوتے  ہیں ، باپ اپنی معصوم بچی کو محض  اپنے مفاد کی خاطر  ایک اذیت ناک  زندگی میں ڈال دیتا ہے ،ا ور اس لڑکی کی زندگی اجیرن  ہوجاتی ہے ،ا س ظلم  میں باپ  سمیت سارے  صلح کرنے اور کرانے  والے برابر شریک اور گناہ کار ہوں  گے ۔
  • جب یہ عورت مخالف کے گھر میں چلی جاتی ہے تو عموماً اس کی عزت  نہیں ہوتی ،بلکہ اس  کو حقارت  کی نگاہ سے جاتا ہے ، اس  طرح یہ مظلوم  عورت  عموماً سسرال والوں کے طعنوں  اور تکلیفوں  کاشکار رہتی ہے ۔
  • اس صورت میں عموماً عورت  مہر سے  محروم  ہوتی ہے حالانکہ مہر عورت کا ایک حق واجب  ہے ۔

حاصل یہ کہ صلح  کے طور پر لڑکی دینا جاہلانہ  اور ظالمانہ  رسم ہے اور بالکل حرام اور ناجائز ہے ، اس لیے  اس سے اجتناب  کرنا  بہرحال ضروری اور لازم ہے ۔ ( ماخذہ بالتبویب  : 492/62 و 871/33،627/37)

فی بدائع الصنائع  فی ترتیب  الشرائع   ( 6/42 )

وفی الفتاوی الخیریۃ ( 2/104 )

فی الدر المختار  ( 3/58)

وفی حاشیۃ ابن عابدین ( رد المختار  ) 3/58)

وفی البحر الرائق شرح کنز الدقائق (3/145)

  الجواب صحیح

بندہ عبدالرؤف سکھروی

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

عبدالحفیظ  اللہ تعالیٰ

دارالافتاء دارالعلوم کراچی

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ   پی ڈی ایف فائل  میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/555014748201108/

اپنا تبصرہ بھیجیں