“نقد انعام”
از مہناز بنت شہناز شکیل
سلام پھیر کر دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو نظر بے ساختہ دائیں طرف بیٹھے قرآن کی قرات کرتے شوہر کی طرف اٹھ گئی۔ چھبیس سال پرانا کسی کا کہا ہوا فقرہ کانوں میں گونجا۔۔۔۔۔۔۔۔۔” آجکل تو اچھی اچھی پڑھی لکھی خوبصورت لڑکیاں بیٹھی رہ جاتی ہیں ۔ تمہیں اس پردے کے ساتھ کون قبول کرے گا۔ لڑکے ماڈرن، قدم سے قدم ملا کر چلنے والی لڑکیاں پسند کرتے ہیں۔”
جب تک اللہ نے مجھ پر نظر کرم نہیں کی تھی میں بھی تو ایسی ہی تھی۔ جہاں کھڑی ہو جاتی لائن وہیں سے شروع ہوتی تھی۔ جو پہن لیتی وہی فیشن ٹرینڈ سمجھا جاتا۔ مشاعرے ، بیت بازی ، گلوکاری، اداکاری، تقریری مقابلے، کمپئیرنگ غرضیکہ کالج کا کوئی فنکشن میرے بغیر مکمل نہ ہوتا۔ دین سے مجھے کوئی لینا دینا نہ تھا۔ سالوں میں کوئی نماز پڑھ لی تو پڑھ لی۔ہاں ! روزوں کے نام پر فاقے کرنے کی بچپن سے عادت تھی سو وہ خوشی خوشی ہر رمضان کر لیتی۔
پھر زندگی کے بے مقصد شب و روز نے کروٹ بدلی۔ بڑے چچا کو تبلیغی جماعت کے کچھ لوگوں کا ساتھ ملا ۔۔ان کا دل بدلا تو انہوں نے گھر والوں کے ساتھ بھی درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔میرا دل بھی دین کی طرف کھنچنے لگا۔۔۔نمازوں میں پابندی کے ساتھ سرور بھی آنے لگا۔۔۔۔روزوں اور فاقوں کے فرق کا ادراک ہوا۔ قرآن کی قرات اور تلاوت میں تفریق سمجھ آئی تو اللہ کے کلام کو سمجھ کر پڑھنے کی جستجو ہوئی۔مگر جہاں پردے کی آیات یا اس کا تذکرہ آتا دل بیٹھ سا جاتا۔ کوشش ہوتی کہ کہیں سے ایسا جامع مواد مل جائے کہ ثابت ہو جائے کہ پردہ نیکی تو ہو سکتا ہے فرض نہیں ہے۔ میرادل چیِخ چیِخ کر گواہی دیتا کہ پردے کی فرضیت اثل حقیقت ہے لیکن میں آئیں بائیں شائیں کرتی نظریں چراتی رہتی۔۔۔۔۔پتہ نہیں خود سے،حقیقت سے یا اللہ رب العزت سے !!!
ضمیر کے کچوکوں سے تنگ آ کر ایک دن میں نے کہا کہ اللہ جی! ٹھیک ہے۔ اگر میرا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ہو گیا تو میں پردہ کر لوں گی۔
لیکن اس کے فورا بعد مجھے بہت شرمندگی ہوئی کہ بھلا اللہ سے بھی کوئی شرطیں باندھتا ہے؟ اللہ کو میرے پردے کی کیا ضرورت ہے؟ محتاج تو میں ہوں۔
اللہ کا احسان تھا کہ اللہ نے میری طبعیت میں بچپن سے ایک مروت رکھی تھی۔ کسی کا دل دکھاتے، مذاق اڑاتے، ٹکا سا جواب دیتے، کسی کو خالی ہاتھ لوٹاتے مجھے شرم آتی تھی۔ اگر نادانستگی میں ایسا ہو جاتا تو کئی کئی راتیں مجھے نیند نہ آتی۔ اب خوش قسمتی یہ ہوئی کہ لوگوں سے مروت برتتے برتتے مجھے اللہ سے حیا آنے لگی۔
اب یہ تو طے کر لیا کہ پردہ کرنا ہے مگر دل اب بھی پردے کے خوف سے سینے میں پھڑپھڑانے لگتا۔یہ سوچ کر ٹالا کہ اس ماہ تو جیب خرچ ختم ہو گیا ہے۔ اگلے مہینے کے جیب خرچ سے عبایہ لوں گی۔ اگلے ہی دن چھوٹے چچا نے امتحانوں میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے کا انعام ہاتھ پر رکھا تو لگا اللہ جی کہہ رہے ہیں۔۔۔۔”بہانے نہ بنا لڑکی!”
مجھے بہت شرمندگی ہوئی کہ کہاں تو صحابیات رضوان اللہ اجمعین کا ایمان اور عمل کہ جب پردے کی آیات نازل ہوئیں تو جو گھروں سے باہر تھیں وہ وہیں گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گئیں یہاں تک کہ کسی نے آ کر ان پر چادر ڈال دی۔ یہ نہیں کہا کہ گھر جا کر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔ اور کہاں میں کہ بہانے بازیاں ہی ختم ہونے میں نہیں آ رہیں۔
بس پھر پردہ شروع کر دیا ۔ گو کہ پردے کی اتنی سمجھ بوجھ نہ تھی۔۔۔۔نہ افادیت کی نہ اس کے مقصد کی ۔۔۔۔بس یہ پتہ تھا کہ اللہ کا حکم ہے سو انکار کی گنجائیش نہیں۔
انہی دنوں آرمی میڈیکل کالج کے داخلہ ٹیسٹ کے پاس ہونے کی نوید کے ساتھ میڈیکل ٹیسٹ کے لئے بلاوہ آ گیا۔ خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ مجھے ڈاکٹر بننے کا اتنا شوق نہ تھا جتنا کیپٹن ڈاکٹر بننے کا جنون تھا اور اس کی وجہ بھی خاصی احمقانہ تھی یعنی ان کا یونیفارم۔ میں تقریبات میں بھی ساڑھی شوق سے پہنتی تھی مگر آرمی کے یونیفارم کا تو الگ ہی سحر تھا۔
میڈیکل بھی کلئیر ہو گیا تو ان کی آفیسر نے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا ۔۔”آپ نقاب کرتی ہیں جبکہ ہمارے یونیفارم پر نقاب کی اجازت نہیں۔ اگر ہم آپ کو سیلیکٹ کرتے ہیں تو کیا آپ نقاب چھوڑ دیں گی؟”
مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے لمحہ بھر بھی نہیں سوچا یہ کہتے ہوئے کہ ۔۔۔”نہیں! ایسی صورت میں میں آپ کی سیٹ چھوڑ دوں گی۔پردہ نہیں چھوڑ سکتی”
مجھے پردہ کرتے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے۔ نہ میرا ایمان اتنا پِختہ تھا، نہ علم اور نہ عمل۔جب پتہ چلا کہ آرمی والوں نے ریجیکٹ کر دیا ہے تو وقتی طور پر بہت دکھ ہوا۔ رونا دھونا بھی مچایا لیکن بعد میں احساس ہوا کہ اللہ نے میرے لئے اس سے بہتر فیصلے کر رکھے تھے۔ یہ صرف اللہ کی ذات تھی جس نے مجھ سے ایسا عمدہ فیصلہ کروایا کہ پھر زندگی بھر مجھے ایک لمحے کا بھی پچھتاوا نہ ہوا۔
کچھ دنوں بعد پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد میں ایڈمیشن ہو گیا۔اللہ نے پردے کے ساتھ عزت کے 5 سال وہاں نوازے۔ بہت سے دینی ساتھی ملے۔غلطیاں کر کر کے بہت کچھ سیکھا۔ والدین نے دین اور پردے کے معاملے میں بھرپور ساتھ دیا اور حوصلہ افزائی کی۔والد صاحب کی طرف سے ایک ہی تنبیہہ تھی کہ کسی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں بننا۔ دین جتنا مرضی سیکھو۔ اللہ ان کے دونوں جہان اچھے کریں۔مختلف فورمز سے دین سیکھنے کا موقع ملا۔ یہ بھی سمجھ آنا شروع ہوا کہ پردہ صرف منہ ڈھک لینے کا نام نہیں۔ زینت کو۔۔۔ خواہ وہ جسم کی ہو ،اداوں کی ہو، لباس کی ہو یا عبایہ کی ۔۔۔۔چھپا لینا پردہ ہے۔ اللہ نے وہ دور بھی دکھایا کہ اس درجے میں نظر کی حفاظت کی کہ مردوں کے جوتے دیکھ کر راستے سے ہٹ جاتے تھےاور حدیث مبارکہ کے مطابق ایمان کی حلاوت اپنے دل میں محسوس کی۔ ساتھی لڑکے عزت سے راستہ چھوڑ دیتے تھے ۔ کبھی کسی ضرورت کے تحت بات کرنی پڑ جاتی تو وہ احترام سے نظریں جھکائے رہتے۔ قرآن کی آیت کے مصداق ۔۔۔۔ہم پہچان لی جاتیں اور ستائی نہ جاتیں ۔پردہ کبھی کسی کام میں حائل نہیں ہوا سوائے برائیوں کے۔
میرا ٹوٹا پھوٹا پردہ میرے لئے ایسے ہی تھا جیسے کسی ماں کیلئے اس کا ذہنی و جسمانی معذور بچہ ہوتا ہے۔۔۔۔جو لائق فائق ڈاکٹر انجینئر نہ ہو سکنے کے باوجود ماں کو سب سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔
اللہ نے رشتہ بھی بھجوایا تو ایسا کہ خوش شکل بھی تھے ،پڑھے لکھے بھی،اچھے حسب نسب والے بھی اور امریکہ میں برسر روزگار بھی مگر شادی کے لئے ان کی بنیادی شرط یہی تھی کہ لڑکی باپردہ ہو۔ چھوٹے چچا نے شادی کے لئے رضامندی پوچھتے ہوئے کہا کہ دین تمہیں یہ حق دیتا ہے کہ تمہاری پسند سے تمہاری زندگی کا فیصلہ ہو۔ اور لڑکے کی تعریف میں انہوں نے اوپر بیان کردہ کوئی بات نہیں کی بلکہ کہا کہ وہ اپنے والدین کا بہت احساس اور ِخیال کرنے والا ہے ۔ جو والدین کا نہ ہو وہ کسی کا نہیں ہوتا۔ وقت نے ثابت کیا کہ وہ کتنے صحیح تھے۔
حدیث قدسی میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ جب بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔
(بخاری و مسلم)
اس کا ظہور عملی طور پر میں نے اپنی زندگی میں دیکھا۔ مجھ گنہگار نے ایک قدم اللہ کی طرف بڑھایا، وہ بھی اسی کی دی ہوئی توفیق سے، تو اس کی رحمتوں نے دوڑ کر مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔
یہ شخص جو میرے پاس بیٹھا قرآن کی قرات کر رہا ہے اللہ کی طرف سے نقد انعام ہے۔ بہترین بیٹا، بہترین بھائی،بہترین شوہر اور بہترین باپ۔ حرام نہ کھانے والا، کسی کا حق نہ مارنے والا، ساس سسر کو ماں باپ کا درجہ دینے والا، بڑھ کر دوسروں کے دکھ سمیٹنے والا اور سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والا۔۔۔۔۔۔انعام نہیں تو اور کیا ہے؟
شادی کے تمام دنیاوی فلسفے بیکار ہیں۔ حقیقت میں شادی ایسے ہمسفر کا مل جانا ہے جس کے ساتھ جنت کا راستہ آسان ہو جائے۔ شادی کے بعد زندگی کے ساتھ ساتھ ایمان نے بھی کئی نشیب و فراز دیکھے۔ کبھی ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اللہ کے راستے پر بگٹٹ بھاگے، کبھی گر پڑے، کبھی آہستہ آہستہ چلے اور کبھی گھسٹتے رہے لیکن ایک دوسرے کو راستے سے بھٹکنے نہ دیا الحمد للہ۔