صبح صادق کے بعد قضٲ، نوافل اور تحیۃ الوضوء پڑھنے کا حکم

فتویٰ نمبر:4075

سوال: السلام علیکم ورحمۃاللہ! 

میں یہ پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ

1) اگر کوئی وتر کی نماز ادا کررہا ہوں اور فجر کی اذان شروع ہو جائے تو کیا وتر کی نماز ہوجائے گی دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔

2)اور فجر سے پہلے اگر کوئی قضا نماز پڑھنا چاہےیا نفل پڑھنا چاہے تو کیا وہ ہوجائے گی ؟

3) اگر نفل نماز فجر کے بعد اور فجر کی نماز سے پہلے پڑھنا جائز نہیں ہے تو جو دو رکعت تحیۃ الوضو ہوتے ہیں۔ کیا وہ کیا وہ پڑھ سکتے ہیں یا وہ بھی نہیں پڑھ سکتے ؟

والسلام

الجواب حامداًو مصلياً

1۔ صبح صادق کے بعد قضا نماز پڑھنا درست ہےلہذا وتر کی نماز کے دوران اگر فجر کی اذان شروع ہوجائے تو وتر کی نماز درست ہوجائے گی دوبارہ اعادہ کی ضروت نہیں ہے ۔

چنانچہ فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے :

طلوع صبح صادق کے بعد وتر کی قضاء کرنا جائز اور درست ہے؛ کیوں کہ ان اوقات میں واجب نمازوں کی قضاء درست ہے۔ (فتاوی دارالعلوم ۴/ ۳۵۸، جدید ، انوار مناسک: ۳۸۸)

2 ۔ سوال میں فجر سے مراد فجر کا وقت داخل ہونے سے پہلےکا وقت مراد ہے تو اس وقت قضا ونوافل دونوں طرح کی نمازیں ادا کرنا درست ہے۔ 

البتہ فجر سے مراد اگر فجر کا وقت داخل ہونے کے بعد فجر کی نماز سے پہلے کا وقت مراد ہے تو اس وقت قضا نماز پڑھ سکتے ہیں البتہ نفل نماز کا پڑھنا درست نہیں کیوں کہ فجر کے وقت داخل ہونے کے بعد فرض نماز سے پہلے نوافل پڑھنا جائز نہین ہے ۔

3۔ فجر کا وقت داخل ہونے کے بعد فرض نماز سے پہلے فجر کی دو سنت مؤکدہ سنت کے علاوہ کسی نفل نماز کا پڑھنا مکروہ تحریمی ہے ۔

اسی طرح فجر کی نماز کے بعد بھی سورج طلوع ہونے تک کوئی نفل نماز پڑھنا جائز نہیں ہے لہذا طلوع فجر کے بعد تحیة الوضوء، تحیة المسجد وغيره پڑھنا درست نہیں ۔ 

البتہ سنت موکذہ یا فرض نماز شروع کرتے وقت اسی نماز میں تحیۃ الوضوء کی نیت بھی کرلی جائے تو ان شاء اللہ اس کی فضیلت سے محرومی نہ ہوگی ۔

(مستفاد: احکام اعتکاف از مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالیہ : ۷۵)

” ابن عمر -رَضي اللہ عنہ- أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا صلوۃ بعد الفجر إلا سجدتین”۔ 

(سنن الترمذي:۱/ ۹۶، باب ماجاء لا صلوۃ بعد طلوع الفجر إلا رکعتین)

“والواجبات علی قسمین: قسم وجب بإیجاب العبد کالمنذورۃ، وقسم وجب بإیجاب اﷲ تعالیٰ یجوز أداؤہ في ہذین الوقتین، وما وجب بإیجاب العبد لا یجوز”۔

(الفتاوی التاتارخانیۃ: ۲/ ۱۵، رقم: ۱۵۲۲کتاب الصلاۃ، الفصل الأول في المواقیت)

“إن الوتر أقوی من سائر السنن، حتی أنہا تقضي إذا انفردت بالفوات ألا تری! أن لا وتر بعد الصبح، المراد النہي عن تأخیرہا لا في قضائہا، وکذلک تقضی بعد صلاۃ الفجر قبل طلوع الشمس”۔ 

(المبسوط للسرخسي: ۱/ ۱۵۵کتاب الصلاۃ، باب مواقیت الصلاۃ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

“الوتر یقضی بعد طلوع الفجر بالإجماع بخلاف سائر السنن۔”

(البحر الرائق: ۱/ ۴۳۷ ، کتاب الصلاۃ)

“ویکرہ أن یتنفل بعد طلوع الفجر بأکثر من رکعتي الفجر؛ لأن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم لم یزد علیہما فقد منع عن تطوع آخر لیبقی جمیع الوقت کالمشغول بہما لکن صلاۃ فرض آخر فوق رکعتي الفجر، فجاز أن یصرف الوقت إلیہ”۔

(الجوہرۃ النیرۃ:1/ ۸۴، کتاب الصلاۃ، قبیل باب النوافل )

“ورکعتان أو أربع وہي أفضل لتحیۃ المسجد إلا إذا دخل فیہ بعد الفجر أو العصر”۔ 

(شامي: ۲/ ۱۸، کتاب الصلوۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في تحیۃ المسجد،

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:19 رجب،1440ھ

عیسوی تاریخ:26 مارچ،2019ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں