فتویٰ نمبر:508
سوال :حضرت ایک مسئلہ معلوم کرناہے کہ آج کل ہمارے کاروبار میں یہ طریقہ رائج ہے کہ ہم اسٹورز(stores)وسپرمارکیٹس (super market)وغیرہ کومال دیتے ہیں اور مال صحیح حالت میں دیتے ہیں لیکن اگر اسٹورز پر کسی وجہ سے وہ چیز خراب ہوجاتی ہے مثلاً شیشی ٹوٹ گئی ،یا بوتل کا ڈھکنا ٹوٹ گیا یا ان کے پاس رکھے رکھے مال ایکسپائر (expire)ہوگیا تو اسٹورز والے وہ چیز ہم کو واپس کردیتے ہیں اور ہم کو بھی اپنے کاروبار کو جاری رکھنے کیلئے وہ چیز واپس لے کر نقصان برداشت کرناپڑتا ہے اگر ہم وہ چیز واپس نہ لیں تو ہمارا ان سے کاروبار ہی بند ہوجائے ایسی صورتحال میں ہماری راہنمائی فرمائیں کہ ہمارا اس طریقے پر کاروبار درست ہے یا نہیں ؟ اسٹورز والوں کی یہی پالیسی (policy)ہے اگر ہم اس کو نہ مانیں تو ہم کوان سے کاروبار بند کرناپڑے گا کیا ہم اس وجہ سے ان سے کاروبار ہی بند کردیں؟ ویسے یہ طریقہ تمام ہی اسٹورز میں رائج ہے اور مال دینے والوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ ہم کو خراب مال واپس ہی ملے گا ۔
الجواب حامداًومصلیاً
صورت ِمسئولہ میں اگر واقعۃً سائل بحیثیت ِسیلزمین صحیح وسالم حالت میں اپنامال اسٹورزاور سپرمارکیٹس پر بیچتا ہے پھر ان اسٹوروں اور سپر مارکیٹوں میں رکھے ہوئے اس مال میں ان ہی کے ہاتھوں اور انکے تصرف کرنے سے دانستہ یا نادانی میں وہ مال خراب اور ناکارہ ہوجاتاہے مثلاًشیشی ٹوٹ گئی یابوتل کا ڈھکنا ٹوٹ گیا وغیرہ تواس صورت میں اسٹورز اور سپرمارکیٹس کایہی خراب اور ناکارہ مال واپس کرناشرعاً درست نہیں کیونکہ وہ ہی اس کے مالک ہیں اور انکے قبضہ اور تصرف میں رہتے ہوئے چیزعیب دار ہوتی ہے۔
المبسوط للسرخسي – (25 / 190)
وَلَوْ اشْتَرَى ثَوْبَيْنِ كُلَّ ثَوْبٍ بِعَشَرَةٍ عَلَى أَنْ يَأْخُذَ أَيَّهُمَا شَاءَ وَيَرُدَّ الْآخَرَ فَهَلَكَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ الْبَائِعِ فَالْمُشْتَرِي عَلَى خِيَارِهِ فِي الْبَاقِي…………وَلَوْ حَدَثَ بِأَحَدِهِمَا عَيْبٌ عِنْدَ الْمُشْتَرِي لَزِمَهُ الَّذِي حَدَثَ بِهِ الْعَيْبُ؛ لِأَنَّهُ عَجَزَ عَنْ رَدِّهِ كَمَا قَبَضَهُ بِخِلَافِ مَا إذَا حَدَثَ بِأَحَدِهِمَا عَيْبٌ عِنْدَ الْبَائِعِ أَوْ بِهِمَا فَالْمُشْتَرِي عَلَى خِيَارِهِ؛ لِمَا بَيَّنَّا.
البتہ اگر اسٹورز اور سپر مارکیٹس وغیرہ کے پاس وہ مال عدم ِفروختگی کی بناءپر رکھے رکھے ایکسپائر ہوگیا تو پھراس صورت میں یہی ایکسپائر مال سیلزمین کو عرف میں رائج ہونے اور اسٹورزوسپرمارکیٹ مالکان کے اپنے اختیار میں نہ ہونے کے باعث واپس کرسکتے ہیں ۔
فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (15 / 107)
وَكُلُّ شَرْطٍ لَا يَقْتَضِيهِ الْعَقْدُ وَفِيهِ مَنْفَعَةٌ لِأَحَدِ الْمُتَعَاقِدَيْنِ أَوْ لِلْمَعْقُودِ عَلَيْهِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الِاسْتِحْقَاقِ يُفْسِدُهُ كَشَرْطِ أَنْ لَا يَبِيعَ الْمُشْتَرِي الْعَبْدَ الْمَبِيعَ ؛ لِأَنَّ فِيهِ زِيَادَةً عَارِيَّةً عَنْ الْعِوَضِ فَيُؤَدِّي إلَى الرِّبَا ، أَوْ ؛ لِأَنَّهُ يَقَعُ بِسَبَبِهِ الْمُنَازَعَةُ فَيَعْرَى الْعَقْدُ عَنْ مَقْصُودِهِ إلَّا أَنْ يَكُونَ مُتَعَارَفًا ؛ لِأَنَّ الْعُرْفَ قَاضٍ عَلَى الْقِيَاسِ ، وَلَوْ كَانَ لَا يَقْتَضِيهِ الْعَقْدُ وَلَا مَنْفَعَةَ فِيهِ لِأَحَدِ لَا يُفْسِدُهُ وَهُوَ الظَّاهِرُ مِنْ الْمَذْهَبِ كَشَرْطِ أَنْ لَا يَبِيعَ الْمُشْتَرِي الدَّابَّةَ الْمَبِيعَةَ لِأَنَّهُ انْعَدَمَتْ الْمُطَالَبَةُ فَلَا يُؤَدِّي إلَى الرِّبَا ، وَلَا إلَى الْمُنَازَعَةِ .
تحفة الفقهاء – (2 / 52)
وإن شرطا شرطا لا يقتضيه العقد ولا يلائمه ولأحدهما فيه منفعة إلا أنه متعارف بأن اشترى نعلا وشراكا على أن يحذوه البائع جاز استحسانا والقياس أن لا يجوز وهو قول زفرولكن أخذنا بالاستحسان لتعارف الناس كما في الاستصناع ولو شرطا شرطا لا يقتضيه العقد ولا يلائمه ولا يتعارفه الناس وفيه منفعة لأحد العاقدين بأن اشترى حنطة على أن يطحنها البائع أو ثوبا على أن يخيطه البائع أو اشترى حنطة على أن يتركها في دار البائع شهرا ونحو ذلك فالبيع فاسدوهذا كله مذهب علمائنا