سوال : ہم نے ساؤنڈ سسٹم اپنے پڑوسی سے لے کر استعمال کیا جب واپس کیا تو اس کا کہنا ہے کہ سسٹم خراب ہوگیا ہے اور سسٹم کے 25 ہزار مانگ رہا ہے شرعی رہنمائی فرمادیں اس کا ضمان کس پر ہے؟
سائل : جنید خان
﷽
الجواب حامدا ومصلیا
مذکورہ صورت میں ساؤنڈ سسٹم سائل کے پاس امانت تھا اورامانت کی چیزکا استعمال مکمل دھیان اورانتہائی احتیاط سے کرنا ضروری ہے۔ورنہ ضمان لازم آتا ہے۔مزید تفصیل درج ذیل ہے :
۱۔۔۔اگر استعمال کے لیے لینے والے شخص نےچیز کے استعمال کے دوران کسی قسم کی غفلت یاظلم،زیادتی سے کام نہیں لیا اورپھراس چیز میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی تو اس کا ضمان عاریۃ پر لینے والے شخص پر نہیں آئے گا اگرچہ اس کے قبضہ میں خرابی پیدا ہوئی ہو،اسی طرح اگر اس نے ایسے شخص سےسسٹم استعمال کروایا جو اس کا استعمال بخوبی جانتا تھا پھر بھی کوئی خرابی پیدا ہوگئی یا باوجود احتیاط کے کوئی نقصان ہوگیا تب بھی استعمال کے لیے لینے والا شخص نقصان کا ضامن نہیں ہوگا۔
۲۔۔۔لیکن اگر غفلت اور کوتاہی سے کام لیا گیا ہو یا اجازت سے زائد استعمال کرنے کی وجہ سے کوئی نقصان ہوا یا سسٹم کے استعمال سے ناواقف شخص نے استعمال کیا تو ان تمام صورتوں میں اس شخص پر ضمان آئے گا۔
ضمان کی مقدار سےمتعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر ایسی خرابی ہوگئی جس سے چیز کی مکمل منفعت ختم ہوگئی تو اس کے متبادل دوسری ایسی ہی چیز کا دینا ضروری ہوگا۔ اگر اس کا متبادل نہیں ملتا تو اس کی قیمت لازم ہوگی ۔البتہ جزوی نقصان کی صورت میں نقصان کی تلافی لازم ہوگی۔جس کی صورت یہ ہوگی کہ اس خرابی کو خود ٹھیک کرواکر دے یا مالک کوچیز کی مرمت کے لیے مارکیٹ کے عرف کے بقدر قیمت ادا کردے۔
۱ ۔فی سنن ابی داؤد : کتاب البیوع ، باب فی تضمین العاریۃ ۔ الحدیث۔۳۵۶۲
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَا صَفْوَانُ، هَلْ عِنْدَكَ مِنْ سِلَاحٍ؟»، قَالَ: عَوَرً أَمْ غَصْبًا، قَالَ: «لَا، بَلْ عَوَرً» فَأَعَارَهُ مَا بَيْنَ الثَّلَاثِينَ إِلَى الْأَرْبَعِينَ دِرْعًا، وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، فَلَمَّا هُزِمَ الْمُشْرِكُونَ جُمِعَتْ دُرُوعُ صَفْوَانَ فَفَقَدَ مِنْهَا أَدْرَاعًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَفْوَانَ: «إِنَّا قَدْ فَقَدْنَا مِنْ أَدْرَاعِكَ أَدْرَاعًا، فَهَلْ نَغْرَمُ لَكَ؟» قَالَ: لَا، يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِأَنَّ فِي قَلْبِي الْيَوْمَ مَا لَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ
عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعَارَ مِنْهُ أَدْرَاعًا يَوْمَ حُنَيْنٍ فَقَالَ: أَغَصْبٌ يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ: «لَا، بَلْ عَمَقٌ مَضْمُونَةٌ»،
۲ ۔ وفی بذل المجہود : ۴/۳۰۲ مکتبۃ الشیخ بہادر آباد
قال عاریۃ ام غضبا ای تاخذ عاریۃ ام غضبا قال لا ای لا ناخذھا غضبا بل ناخذ عاریۃ۔۔۔فھل نغرم لک وھذا یدل علی ان الادراع لم تکن مضمونۃ۔
بل عاریۃ مضمونۃ یعنی لو ضاع منھانغرم لک وانما قال ذلک لانہ کان لم یسلم بعد فلا یتنفر قلبہ عن الاسلام ویطمئن نفسہ الیہ وزیادۃ قولہ مضمونۃ یدل علی ان ھذہ العاریۃ مختصۃ بالضمان لوجہ خاص۔ولا یدل علی انہ فی جمیع العواری ان ھلک یجب الضمان بل دلالتہ علی ان المستعیر لو احب ادی ضمانہ ولو لم یؤد لا یجبر علیہ۔
۳۔فی مجلۃ الاحکام العدلیۃ ، کتاب العاریۃ : مادۃ ۸۱۳/۸۱۴ (۲۴۵ دار ابن حزم بیروت)
العاریۃ امانۃ فی یدالمستعیر فاذا ھلکت او ضاعت او نقصت قیمتھا بلا تعد ولا تقصیر لا یلزم الضمان۔۔۔ واذا حصل من المستعیر تعد او تقصیر بحق العاریۃ ثم ھلکت او نقصت قیمتھا فبای سبب کان الھلاک او النقص یلزم المستعیر الضمان۔
۴۔وفی المبسوط للسرخسی : ۱۱/۱۵۰ ط رشیدیہ
وإن استعار ثوبا ليلبسه هو فأعطاه غيره فلبس فهو ضامن؛ لأن الناس يتفاوتون في لبس الثوب، ولبس القصاب والدباغ لا يكون كلبس البزاز والعطار فكان هذا تقييدا مفيدا في حق صاحب الثوب، فإذا ألبسه المستعير غيره صار مخالفا
۵۔ وفی التنویر مع الدر : کتاب العاریۃ،۸/۵۶۲ ط رشیدیہ
(ولو استعار ذھبا فقلدہ صبیا فسرق) الذھب (منہ) ای: من الصبی (فان کان الصبی یضبط) حفظ (ما علیہ)من اللباس (لم یضمن والا ضمن) لانہ اعارۃ والمستعیر یملکھا
واللہ اعلم بالصواب
محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ
نور محمد اسلامک ریسرچ سینٹر
دھوراجی کراچی
۹/۴/۱۴۴۱ھ
2019/12/07