فتویٰ نمبر:460
خرید وفروخت کے جدید طریقے:
مولانا لطف اللہ فاضل: تخصص فی فقہ المعاملات المالیہ، جامعۃ الرشید
سادہ طریقے سے خریدوفروخت کی صورتیں
مختلف کمپنیاں اور ان کا طریقہ کار:
آج کل فاریکس اور اس کے نام سے کاروبار کرنے والی نئی کمپنیاں وجود میں آئی ہیں۔ اس کاروبار کے طریقہ کار کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کاروبار کی وہ تمام تر صورتیں جو عام طور سے اختیار کی جاتی ہیں نا جائز ہیں۔
کاروبار کا طریقہ کار یوں ہے کہ ایک شخص دس ہزار ڈالر کمپنی میں جمع کروا کے اس اسکیم کا رکن بن سکتا ہے۔ کمپنی والے اس کی رہنمائی کرتے ہیں کہ وہ کب اور کون سی جنس خرید لے کہ جس کو بعد میں فروخت کر کے نفع کی امید کی جا سکتی ہے۔ ہر کرنسی یا شے کی خرید کی کم سے کم مقدار مقرر کی ہوئی ہے، جس کو لاٹ یا کھیپ کہا جاتا ہے۔ مثلاً:62 ہزار 5 سو برطانوی پاؤنڈ کی یا ایک لاکھ 25 ہزار جرمن مارک کی ایک لاٹ ہوتی ہے۔ اشیا و اجناس میں کپاس چینی اور گندم اور زر نقد میں سونا اور چاندی ہے۔ سونے کی ایک لاٹ یا کھیپ ایک سو اونس او ر چاندی کی ایک لاٹ 5 ہزار اونس پر مشتمل ہوتی ہے۔ جب آپ کسی کرنسی یا مذکورہ اشیا میں سے کسی ایک کی کوئی لاٹ خریدنا چاہیں اور کمپنی کو اپنا آرڈر دیں تو کمپنی ان جمع شدہ 10 ہزار ڈالر میں سے 2 ہزار ڈالر بطور بیعانہ یا تحفظ کے رکھ لیتی ہے اور آرڈر مرکزی دفتر کو پہنچا دیتی ہے، جو آرڈر کی تکمیل کر کے لاٹ کی خرید کی اطلاع دیتا ہے۔

کریڈٹ کارڈ کے ذریعے سونا چاندی خریدنا جائز ہےکیونکہ کارڈ والے کی طرف سے دستخط شدہ پرچی قبضے کے قائم مقام ہوتی ہے ٭…بینک اگر سنار کے پاس فروخت کرنے کی خاطر سونا رکھوائے اور اس سے اطمینان کے لیے کچھ رقم لے، تو یہ بینک کے لیے جائز ہے۔
یہ خرید بھی دو طرح کی ہوتی ہے: ایک نقد جس کو (کیش ٹریڈنگ) یا (سپورٹ) کہا جاتا ہے اور دوسری بیع سلم قسم کی، جس کو (فیوچر ٹریڈنگ)کہا جاتا ہے۔ نقد میں تو مبیع یعنی خریدی ہوئی شے پر فوری قبضہ مل سکتا ہے جب کہ (فیوچر… یعنی بیع سلم میں) یہ طے پاتا ہے کہ بائع ایک مقررہ مدت کے بعد طے شدہ مہینے میں فلاں تاریخ کو وہ لاٹ مہیا کرے گا، قیمت بھی طے کر لی جاتی ہے۔ اس کاروبار میں کمپنی کے کردار کی وضاحت ایک کمپنی (ایمپائر ریسورسز) نے کی ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ کمپنی اپنے موکلین اور دنیا کے مختلف تجارتی مراکز میں موجود دلالوں کے درمیان کمیشن ایجنٹ کے طور پر کام کرتی ہے۔ ہر سودا جو کمپنی کراتی ہے، اس پر وہ 50 یا 60 ڈالر کمیشن لیتی ہے، خواہ سودے میں موکل کو نفع ہو یا نقصان ہو، پھر جو لاٹ خریدی، اگر خرید اری کے دن ہی فروخت کر دی گئی تو کمپنی صرف اپنی کمیشن وصول کرے گی اور اگر فروخت میں کچھ دن لگ گئے تو کمپنی کمیشن کے علاوہ 5 یا 6 ڈالر یومیہ کے حساب سے سود وصول کرے گی، بعض صورتوں میں موکل کو سود ملتا ہے۔ مثلاً:
(1)سپورٹ، کیش ٹریڈنگ
کمپنی کی اپنی وضاحت کے مطابق، وہ اپنے موکلین اور دلالوں کے درمیان رابطہ کرتی ہے اور کمیشن پر سودے کرواتی ہے۔ اس صورت میں سودا موکل اورتجارتی مرکز میں موجود دلال کے مابین ہوتا ہے لیکن چونکہ موکل پوری رقم کی ادائیگی تو کرتا نہیں، لہٰذا سونے اور چاندی کی خریداری کی صورت میں سودا دو وجہ سے ناجائز ہوا:
1 یہ دین کی عوض دین کی بیع ہے، بائع اور خریدار دونوں کی جانب سے ادھار ہے، کیونکہ نہ تو بائع نے خریدار کو خریدی ہوئی چیز پر قبضہ دیا اور نہ ہی خریدار نے قیمت کی ادئیگی کی اور دین کی دین کے عوض بیع ناجائز ہے۔
2 خرید پر جتنے دن گزریں گے خریدار یعنی موکل کو یومیہ کے حساب سے سود ادا کرنا پڑے گا اور اس کے برعکس اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ کمپنی خود لاٹ خرید لیتی ہو یا اس کے پاس پہلے سے موجود ہو تو پھر اس میں 2 صورتیں ہیں:
کمپنی اپنے لیے خریدتی ہو اور پھر موکل کے ہاتھ فروخت کرتی ہو تو اس میں مذکورہ بالا دونوں خرابیاں بعینہِ تو ہیں ہی، تیسری خرابی یہ ہے کہ کمیشن بلا وجہ وصول کر رہی ہے۔
کمپنی موکل کے لیے خریدتی ہو اور اپنے سے مکمل ادائیگی کر کے مبیع پر قبضہ کر لیتی ہو، اس صورت میں اگرچہ دین کی دین کے عوض بیع تو نہیں بنتی، لیکن سود سے بچاؤ تو اس میں بھی نہیں ہے۔ (2)فیوچر ٹریڈنگ
یہ اگر چہ بیع سلم کی صورت ہے لیکن اس میں بیع سلم کی بعض شرائط مفقود ہیں:
پہلی یہ کہ سودا طے پانے کی مجلس میں راس المال (رقم) کی ادئیگی نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں بیع سلم میں یہ ضروری ہے کہ جب تک مسلم فیہ (خریدی ہوئی چیز) پر قبضہ نہ ہو جائے۔ اس میں کسی قسم کا تصرف نہ کیا جائے، لیکن زیر بحث کاروبار میں اصل یہی ہے کہ مسلم فیہ پر قبضہ کیے بغیر مہیا کیے جانے کی تاریخ سے پیشتر ہی اس کو آگے فروخت کر دیا جاتا ہے۔
یہ خرابیاں اس صورت میں ہیں جب خرید کردہ چیز اجناس و اشیا ہوں تاہم اگر خرید کردہ چیز سونا یا چاندی ہو تو اس میں بیع سلم جائز ہی نہیں کیونکہ سلم، ثمن (کرنسی) میں نہیں ہوتی۔
یہ ساری تفصیل تو اس صورت میں ہے جب مذکورہ کمپنیاں واقعی کچھ کاروبار کی صورت اختیار کرتی ہوں، ورنہ تو ہمارا غالب گمان یہ ہے کہ سب کچھ فرضی کارروائیاں ہوتی ہیں۔
دوسرا طریقہ ایک اور مروجہ صورت کاروبار کی جو آج کل رائج ہے، یہ ہے کہ مثلاً ایک مہینے کے ادھار کی ایک مخصوص مقدار 10 تولے سونے کا سودا کر لیا جاتا ہے، خریدار سونے پر قبضہ نہیں کرتا۔ جب ادائیگی کی تاریخ آتی ہے تو سونے کے اس دن کے نرخ کو دیکھ لیا جاتا ہے، خرید کے دن اور ادائیگی کے سونے کے نرخوں میں جو فرق ہوتا ہے اس کی ادائیگی کر دی جاتی ہے، مثلاً: خرید کے دن سونے کا نرخ 5 ہزار روپے فی تولہ تھا۔ ادائیگی کے دن 5 ہزار ایک سو روپے تولہ ہو گیا تو خریدار بائع کو ایک ہزار روپے دے گا۔ نہ تو مشتری سونے پر قبضہ کرتا ہے اور نہ بائع قیمت پر قبضہ کرتا ہے۔ بس نرخ میں کمی بیشی سے جو فرق آتا ہے اس کا لین دین کر لیتے ہیں، کاروبار کی یہ شکل ناجائز اور حرام ہے۔
بینکوں کے ذریعے سونے چاندی اور قیمتی دھاتوں کا لین دین
چیک کے ذریعے :
موجودہ کرنسی چونکہ نہ سونے چاندی کی بنی ہے اور نہ اس کی پشت پر سونا چاندی موجود ہیں اور چیک نوٹ کے مقابلے ہی کے جاری ہوتے ہیں، اس لیے چیک سے سونے چاندی کی خرید و فروخت جائز ہے، کیونکہ یہ بیع صرف نہیں لہذا اس میں تقابض شرط نہیں۔
( مجلۃ مجمع الفقہ الاسلامی: ع 3جج3 ص1696)
کریڈٹ کارڈ کے ذریعے :
کریڈٹ کارڈ کے ذریعے سونا چاندی خریدنا جائز ہے، کیونکہ کارڈ والے کی طرف سے دستخط شدہ پرچی قبضے کے قائم مقام ہوتی ہے، جیسا کہ چیک، لیکن تاخیر یا عدم تاجیل کی شرط لگانا جائز نہیں۔(موسوعۃ فتاوی المعاملات المالیۃ: ج7 ص504)
بینک کا سونا خریدنا اور آگے کسی کو بیچنا:
بینک کسی سے سونا خرید لیتا ہے، سونے کی قیمت بائع (سیلر) کے اکاؤنٹ میں جمع کر دیتا ہے، اس کے بعد بینک اس سونے کو کسی اور کو فروخت کرتا ہے تو اس طرح کرنا بینک کے لیے جائز ہے کیونکہ سونا بینک کی ملکیت میں آگیا اور بدلین پر قبضہ ہوگیا، لہذا اب آگے کسی اور کو فروخت کرنا بینک کے لیے جائز ہو گا۔(موسوعۃ فتاوی المعاملات المالیۃ: ج 7ص509)
بینک کا کسی کے پاس فروخت کرنے کی خاطر سونا رکھوانا:
بینک اگر سنار کے پاس فروخت کرنے کی خاطر سونا رکھوائے اور اس سے اطمینان کے لیے کچھ رقم لے، تو یہ بینک کے لیے جائز ہے کیونکہ بینک نے سنار کو وکیل بالشراء بنایا، اس لیے وہ بینک سے اس پر وکالہ فیس بھی لیتا ہے اور یہ اس کے لیے جائز ہے۔
رہا سنار سے اطمینان کی خاطر کچھ رقم وغیرہ لینا تو یہ بھی جائز ہے، البتہ اگر بغیر کسی تعدی کے سنار سے سونا ضائع ہو گیا تو سنار ضامن نہیں ہو گا۔ فروخت کرنے کی صورت میں سنار رکھوائی گئی رقم کا مقاصہ (بینک کے ساتھ رقم برابر کرنا) بھی کر سکتا ہے۔(موسوعۃ فتاوی المعاملات المالیۃ:ج7 ص508 )
سفید سونے(بلاتین)کا حکم:
معدن بلاتین جس کو سفید سونا بھی کہتے ہیں، اس کی مؤجلاً (ادھار) خرید و فروخت جائز ہے کیونکہ یہ سونے کے حکم میں نہیں بلکہ دوسرے معادن) کے حکم میں ہے، بینک اگر اس کی خرید و فروخت کرنا چاہے تو سلم کے طریقے سے خرید و فروخت کرے گا۔(موسوعۃ فتاوی المعاملات المالیۃ: ج 7ص511)