فتویٰ نمبر:4086
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
کسی کو گھر خریدنے کے لیے کچھ رقم چاہیے تو کیا وہ کسی ایسے شخص سے لے سکتا ہے جس کے پاس سودی پیسہ ہو۔کیونکہ پھر اس قرض کو لوٹانا ہی ہے اور پھر وہ گھر حلال ہو جائے گا؟
والسلام
الجواب حامدا ومصلیا
مذکورہ مجبوری میں اس سے قرض لینا جائز ہے۔ حرام کو اپنے سر سے اتارنے کی ذمہ داری خود سود خور کی ہے، آپ کو جو پیسے وہ دے گا وہ حرام شمار نہ ہوں گے، اس لیے مکان بھی حرام نہیں کہلائے گا۔
تاہم تقویٰ کے پیشِ نظر بہتر ہے کہ کسی ایسے شخص سے قرض نہ لیا جائے جو سود میں ملوث ہو۔ اگر کسی اور سے قرض لینا ممکن ہو جو حلال اور حرام میں فرق رکھتا ہو تو یہ بہتر ہو گا، کیونکہ ایک مسلمان کو ہر ایسی چیز سے دور رہنا چاہیے جو پاک اور شفاف نہ ہو۔ آپ ﷺ کے صحابہ کرام کئی جائز راستوں سے دور رہتے کہ کہیں حرام میں داخل نہ ہو جائیں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
“وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى”.
(الانعام: 164)
“اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا”۔
نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ:
“لَا يَبْلُغُ العَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنَ المُتَّقِينَ حَتَّى يَدَعَ مَا لَا بَأْسَ بِهِ حَذَرًا لِمَا بِهِ البَأْسُ”.
“متقی، بندوں میں سے وہ ہیں جو جائز کو اس خوف سے چھوڑ دیں کہ یہ حرام کی طرف نہ لے جاَئے”۔
(أخرجه الترمذي، أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله ﷺ : 2451
وابن ماجه، كتاب الزهد، باب الورع والتقوى: 4215).
واللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ: 10/6/1440
عیسوی تاریخ:15/2/2019
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: