فتویٰ نمبر:4071
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
کسی کو گھر خریدنے کے لیے کچھ رقم چاہیے تو کیا وہ کسی ایسے شخص سے لے سکتا ہے جس کے پاس سودی پیسہ ہو۔کیونکہ پھر اس قرض کو لوٹانا ہی ہے اور پھر وہ گھر حلال ہو جائے گا؟
والسلام
الجواب حامدا ومصلیا
صورت مذکورہ میں علما کا اختلاف ہے:
بعض علما کے نزدیک سودی پیسہ بطور قرض لینا جائز نہیں، کیونکہ سودی پیسے کو اس کے اصل مالکان تک پہنچانا واجب ہے اگر وہ نہ ملیں تو اس کا بلانیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہے، اس کو ذاتی مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں۔
ان حضرات کے نزدیک علم کے باوجود ایسے شخص سے سودی رقم لینا جائز نہیں الا یہ کہ بہت شدید حاجت ہو اور قرض نہ لینے کی وجہ سے زندگی تنگ ہوجائے اور گزارہ مشکل ہوجائے تو وہ مستثنی ہے، لیکن صرف گھر بنانے کے لیے سودی رقم لینا ان کے نزدیک درست نہیں۔
ودلیلھم “ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب ردّہ علیهم، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل له، ویتصدّق به بنیة صاحبه”.
(۷/۲۲۳ ، مطلب فیمن ورث مالاً حراماً) ما في ’’الفتاوی الهندیة‘‘ والسبیل في المعاصي ردّها ، وذلك ههنا بردّ المأخوذ إن تمکن من ردّہ، بأن عرف صاحبه، و بالتصدق إن لم یعرفه ، لیصل إلیه نفع ماله إن کان لا یصل إلیه عین ماله”.
(۵/۳۴۹ ، کتاب الکراہیة ، الباب الخامس عشر في الکسب)
ما في ’’ الموسوعة الفقہیة‘‘ : والواجب في الکسب الخبیث تفریغ الذمة منه إلی أربابه إن علموا، وإلا إلی الفقراء”. (۳۹/۴۰۷ ، الکسب الناشي عن المیسر)
“ما في ’’ الدر المختار مع الشامیة”: الأصل أن المستحق بجهة إذا وصل إلی المستحق بجهة أخری ، اعتبروا أصلاً بجهة مستحقَة إن وصل إلیه من المستحق علیه، وإلا فلا”.
(۷/۲۱۵ ، کتاب البیوع ، مطلب رد المشتري فاسداً إلی بائعه)
ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : لأن سبیل الکسب التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبه”.
(۹/۴۷۰ ، کتاب الحظر والإباحة ، فصل في البیع، الفتاوی الهندیة: ۵/۳۴۹ ، المحیط البرہاني : ۶/۹۷ ، الموسوعۃ الفقهیة : ۳۴/۲۴۵ ، السیر الکبیر : ۴/۴ ، الموسوعة الفقهیة : ۳۹/۴۰۷)(فتاوی محمودیه :۱۶/۳۷۴ ، کراچی)
جبکہ دوسری طرف بعض علما کے نزدیک سودی پیسہ بطور قرض لینا جائز ہے؛ کیونکہ ایسی چیز جو بذاتِ خود حلال ہو جیسے: کرنسی (سونا یا چاندی یا کاغذ پر مبنی) مگر اسے حاصل کرنے کے ذرائع ناجائز ہوں جیسے سود کی کمائی یا جواری کا پیسہ۔۔۔ ان تمام ذرائع آمدن کو اپنانا کسی شخص کے لیے جائز نہیں البتہ اس پیسہ کو کسی دوسرے شخص کے لیے وصول کرنا ۔۔۔جبکہ کچھ نہ کچھ حلال رقم بھی اس کی ملکیت میں ہو۔۔۔ جائز ہے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کسی نے اپنی گاڑی ایسے شخص کو فروخت کی جو سودی پیشے سے وابستہ ہے اور اس سے پیسے وصول کرتا ہے، یا کوئی عورت نفقہ کا خرچہ اس شخص سے حاصل کرے جو سود میں ملوث ہو، یا سودی کاروبار کا حامل شخص کسی کو اپنے خاندان میں تحفہ دے یا کسی کو ادھار دے یا کوئی اور جائز معاملہ کرے اور کچھ نہ کچھ حلال روپے اس کے پاس موجود ہوں تو حرام پیسے کا گناہ اس شخص پر ہوگا جو سود میں ملوث ہو اس پیسے کو وصول کرنے والے شخص پر نہیں ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ سودی پیسہ بطور قرض لینا ان حضرات کے نزدیک جائز ہے اور سود کا گناہ سود کمانے والے پر ہے؛ ادھار لینے والے پر نہیں ۔
سوال میں مذکور صورت میں چونکہ پیسہ سودی ہے تو اگر گھر خریدنے کے لیے قرض کی اشد ضرورت ہے اور صرف سود والا ہی قرض مل رہا ہے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے تو پھر قرض لینے والے کے لیے اس پیسے کا استعمال جائز ہوگا؛ مگر قرض دینے والے کے لیے کسی صورت یہ پیسہ حلال نہیں ہوگا۔
تاہم تقویٰ کے پیشِ نظر بہتر ہے کہ کسی ایسے شخص سے قرض نہ لیا جائے جو سود میں ملوث ہو۔ اگر کسی اور سے قرض لینا ممکن ہو جو حلال اور حرام میں فرق رکھتا ہو تو یہ بہتر ہو گا،کیونکہ ایک مسلمان کو ہر ایسی چیز سے دور رہنا چاہیے جو پاک اور شفاف نہ ہو۔ آپ ﷺ کے صحابہ کرام کئی جائز راستوں سے دور رہتے کہ کہیں حرام میں داخل نہ ہو جائیں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
“وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى”.
(الانعام: 164)
“اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا”۔
نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ:
“لَا يَبْلُغُ العَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنَ المُتَّقِينَ حَتَّى يَدَعَ مَا لَا بَأْسَ بِهِ حَذَرًا لِمَا بِهِ البَأْسُ”.
“متقی، بندوں میں سے وہ ہیں جو جائز کو اس خوف سے چھوڑ دیں کہ یہ حرام کی طرف نہ لے جاَئے”۔
(أخرجه الترمذي، أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله ﷺ : 2451
وابن ماجه، كتاب الزهد، باب الورع والتقوى: 4215).
واللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ: 10/6/1440
عیسوی تاریخ:15/2/2019
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: