سودی مسائل

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:62

سود مسائل

السلام علیکم

 درج ذیل  مسائل کا  شرعی حل مطلوب ہے ۔

  • غیرا سلامی بینک سے حاصل ہونے  والے سودرفاہی کاموں میں صرف کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
  • زید خود مستحق زکوۃ ہے تو کیا زیدخود کے اکاؤنٹ سے حاصل شدہ  سود کواپنے  استعمال میں لاسکتا ہے؟یا دوسرے فقراء  پر تصدیق  لازم ہے  ؟ نیز کیا زید اس سود کو اپنی بیوی یا اپنے اصول وفروع  پر تصدیق کرسکتا ہے ؟
  • عمرمتشرع شخص ہے اس پر تجارت  کرتے  کرتے  چھ لاکھ  روپوں کا قرض ہوگیا قرض  خواہ مطالبہ کرتے رہتے ہیں نیز عمر کے دو  شادی شدہ بھائی کی ذمہ داری  بھی اسی پر ہے  ۔ عمر کوکوئی  قرض حسنہ  بھی نہیں مل رہا اورا س کو کوئی زکوۃ بھی نہیں دے رہا ۔عمر پریشان حال  ہے تو کیا ا س صورت حال میں بقدر  ضرورت  سودی لون  لینا جائز ہوگا ؟

مفصل جوابات مرحمت فرماکر ماجور ہو فقط

 الجواب حامداومصلیا ً

  • مذکورہ رقم کے بارے میں اصل حکم یہ ہے  کہ یہ رقم اصل مالک کو واپس کردی جائے  لیکن عام طور پر اصل مالک معلوم نہیں ہوتا اس لیے  یہ رقم   ثواب  کی نیت   کے بغیر  اصل  مالک یا اصل مالکوں  کی طرف سے صدقہ کرنا  ضروری ہے  اور احتیاط  اسی میں ہے  تاہم اس سلسلہ میں اکابر  علماء کی دو رائے ہیں۔
  • حرام مال کے مصارف  وہی ہیں جو زکاۃ اور دیگر صدقات  واجبہ کے ہیں جن کا ذکر قرآن میں ہے،ا ور اس میں تملیک  ( کسی کومالک بنانا )  بھی شرط ہے  یعنی کسی فقیر ومسکین  کو باقاعدہ  مالک وقابض  بناکر دینا ضروری ہے   کسی  رفاہی کام میں لگانا جائز نہیں ۔
  • حرام مال لقطہ کے حکم میں ہے اور لقطہ کے مصارف وہی ہیں جو صدقات نافلہ کے ہیں ۔ ( یعنی رفاہی   کاموں مثلا مساجد ، مدارس وغیرہ میں لگانا جائز ہے )

پہلے قول میں احتیاط  ہے اور دوسرے میں توسع ( گنجائش ) ہے ۔البتہ احترام مسجد کے  پیش نظر یہ رقم مسجد میں بہرحال نہ لگائی جائے کیونکہ یہ رقم  ناجائزعقد کے ذریعہ حاصل ہوئی ہے ۔

( ماخذہ ‘ فتاویٰ عثمانی : 3/129  تا 140 ، والتبویب  :1734/58 بتصرف)

مرقاۃ المفاتیح  شرح المصابیح  ۔ ( 9/241)

وفی حاشیۃ ابن عابدین  ( ردالمحتار ) ۔ (1/458)

حاشیۃ ابن عابدین  (رد المحتار )   (5/99)

الفتاویٰ الھندیۃ ( 3/212)

2)جب تک حلال مال موجود ہو اس طرح  کا حرام مال استعمال کرنا  ہر گز استعمال کرنا  جائز نہیں ، البتہ  اگر حلال  مال بالکل   بھی موجود نہ ہوا ور  زید کے پاس خرچ کرنے کے  لیے  اور کوئی  مال بھی نہ ہو تو اس  کےلیے مستحق زکوٰ ۃ  ہونے کی بناء پر  یہ حرام  رقم  بطور  صدقہ اپنےا ستعمال  میں  لانے کی گنجائش ہے ، البتہ  سودی لین  دین ناجائز اورسخت حرام ہے ،ا س لیے  ا س پر لازم ہے کہ وہ سودی بینک  سے لین دین  کے معاملات  یعنی سودی  اکاونٹ  بالکلیہ ختم کرے ،ا ور اب تک  جو  گناہ   ہو اہے  اسی پر صدق دل  سےتوبہ کرنا  بھی ضروری  ہے اور رقم  کی حفاظت  کے لیےا یسے غیر سودی بینک  جو  مستند علماء کرام  کے زیر نگرانی  شرعی اصولوں  کے مطابق کام کررہے ہوں ان میں اکاؤنٹ کھلواسکتا ہے  ۔ لیکن اگر اس کے پاس خرچہ  کے لیے رقم ہو اور اس کو یہ رقم استعمال کرنے  کی شدید حاجت  ہو  تو پھر  اس شرط  کے ساتھ استعمال کرنے کی اجازت ہے کہ جب  بعد  میں حلال  مال میسرآجائے  تو اتنی رقم صدقہ کردے۔اور اگر زید کی بیوی  یا اس کے بچے  مستحق زکوٰۃ ہوں تو ان پر صدقہ کرنا بھی جائز ہے ۔ ( ماخذہ ‘امدادالمفتین : 2/386 بتصرف)

فقہ البیوع ،2/1045 )  

3)سودی لین دین  ناجائز اور سخت حرام ہے اس قرآن وحدیث میں  بہت سخت وعیدیں  وارد ہوئی  ہیں ، ایک حدیث میں سود  کھانے والےا ور کھلانے   والےپر رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھجوائی ہے اس لیے موجودہ حالات میں عمر کےلیے سودی قرض  لینا کسی بھی صورت  میں جائز نہیں  ہے اس کے ذمہ لازم ہے  کہ وہ صرف  حلال ذرائع سے مال حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔

البقرۃ :275 )

وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ

سورۃ البقرۃ : 278)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨

سورۃ  آل عمران : 130

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

البقرۃ 173 )

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّـهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٧٣﴾

الصحیح البخاری ۔ نسخۃ طوق النجاہ  ( ص : 360)

واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

محمد علی قرغیزی  عفی اللہ  عنہ 

دارالافتاء  جامعہ  دارالعلوم کراچی  

16 ربیع الثانی ، 1437ھ

 پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ پڑھنے کےلیے لنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/552763761759540/

اپنا تبصرہ بھیجیں