السلام علیکم مفتی صاحب، اگر کوئی مسلمان ،کرنٹ اکاؤنٹ میں بینک میں پیسہ جمع کراتا ہے، مگر ایک مسلمان خاتون جس کا شوہر کا انتقال ہوگیا ہے اور اس کے پاس 2 پاگل بچے ہیں جن کے علاج، دوا اور خوراک کے لیے کچھ نہیں، تو ایسی صورت میں کیا وہ آدمی کرنٹ اکاؤنٹ کی بجائے بینک سے انٹرسٹ والے اکاؤنٹ میں پیسہ رکھوا کے وہ انٹرسٹ سے اس فیملی کی مدد کر سکتا ہے؟
جواب:
کسی بھی مصرف(چاہے وہ صدقہ ،خیرات ہو) میں خرچ کرنے کے لیے سود(انٹرسٹ) ارادۃ ً لینا ہرگز جائز نہیں ۔لہذا کرنٹ اکاؤنٹ یا لاکر میں ہی رقم رکھوائی جائے جس پر سود نہیں لگتا ۔ خدانخواستہ کسی اور اکاؤنٹ میں رقم رکھوائی گئی جس میں انٹرسٹ کےطور پر اضافی رقم آگئی تو اس کو بلا نیت ثواب مستحقین پر صدقہ کرنا واجب ہے ۔
مذکورہ صورت میں خاتون کی مدد کے لیے جان بوجھ کر سود حاصل کرنا جائز نہیں ۔مدد کرنے کا بہترین حل یہی ہے کہ اپنے حلال مال سے زکوٰۃ یا صدقات کی مد میں ان پر خرچ کریں ،تاکہ خرچ کرنے کا بھی ثواب ملے وگرنہ حرام کی کمائی تو غرباء پر ویسے ہی بغیر نیتِ ثواب کے خرچ کی جاتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) ” عن أبي ہریرۃ ، قال: قال رسول الله ﷺ أیہا الناس ، إن الله طیب لا یقبل إلا طیباً ۔ “
(صحیح مسلم ، الزکاۃ ، باب الحث علی الصدقۃ الخ ، النسخۃ الہندیہ ۱/۳۲۶)
(۲) “لأن الله تعالیٰ لا یقبل إلا الطیب فیکرہ تلویث بیتہ بما لا یقبلہ الخ۔”
(شامی ، باب مایفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیہا، مطلب فی أحکام المسجد کراچی ۱/۶۵۸)