فتویٰ نمبر:469
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے کوئی چیز عمر کو فروخت کی۔ عمر کسی سودی ادارے سے وابستہ ہے لہذا عمر نے اس چیز کی قیمت زید کو ادا کر دی۔ آیا اب زید کے لیے اس رقم سے نفع اٹھانا جائز ہے یا نہیں جبکہ یہ قاعدہ بھی ہے کہ ملکیت کے بدلنے سے عین بھی بدل جاتی ہے۔ مفصل رہنمائی فرما کر مشکور ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔
جواب:
عموما لوگوں کے ایک سے زیادہ آمدنی کے ذرائع ہوتے ہیں۔ پھر میراث اور ہدیہ وغیرہ سے بھی ملکیت میں رقم آتی رہتی ہے۔ لہذا عمر کے سودی ادارے سے تعلق کی وجہ سے ساری املاک حرام نہیں قرار پائی۔ لہذا زید کے لیے اپنی چیز کی قیمت عمر سے وصول کرنا جائز ہے البتہ اگر زید کو یقین ہے کہ عمر نے مجھے جو رقم دی ہے وہ یقیناً حرام کی ہے تو اس صورت میں زید عمر سے حلال رقم کا مطالبہ کرے یا اپنی چیز واپس لے لے۔
جو قاعدہ لکھا گیا ہے کہ ملکیت کے بدلنے سے عین بدل جاتا ہے، یہ ضابطہ عین حرام کے بارے میں نہیں۔ یہ اصول اس بارے میں ہے جس میں خبث لعینہ نہ ہو غیر کی وجہ سے خبث آیا ہو مثلاً زکوۃ کی رقم یا کوئی چیز غنی کے لیے حلال نہیں البتہ فقیر کو جب یہ بطور تملک دے دی گئی تو اب اگر فقیر وہ چیز غنی کو دیتا ہے تو اس کے لیے وہ چیز حلال ہو جائے گی یا کسی نے بیع فاسد کی اور مشتری نے وہ چیز آگے دوسرے شخص کو فروخت کر دی تو مشتری ثانی کے لیے یہ چیز حلال ہو گی۔