ہم سب کے شیخ حضرت مفتی سعید احمد حفظہ اللہ سے لوگ بیعت واصلاح کے حوالے سے رابطہ میں رہتے ہیں ۔ مختلف لوگوں کے مختلف احوال ہوتے ہیں کسی کو فورا بیعت کرلیا جاتا ہے کسی کو کہا جاتا ہے کہ استخارہ اور مشورہ کرنے کے بعد دل مطمئن ہو تو بیعت کے لیے حاضر ہوں اور کسی کو بیعت سے پہلے معمولات بتائے جاتے ہیں جب وہ ان معمولات پر کاربند نظر آئے تب اسے سلسلے میں بیعت کیا جاتا ہے۔ پھر بیعت کے بعد کے معمولات ہوتے ہیں جو پابندی اور ہمت و استقلال کے ساتھ کرنا ہوتے ہیں۔ ذکر کرنے کا ایک خاص طریقہ ہوتا ہے اور ہر ایک کے مناسب حال اوراد واذکار ہوتے ہیں۔ ان سب معمولات کو یکجا کرنا حضرت اور حضرت کے متعلقین ومریدین کے لیے مفید اور کام کی چیز تھی اس لیے، مدرسے کے ناظم تعلیمات اور حضرت کے خادم خاص مولانابدراختر صاحب کی تجویز پر اسے بھی مرتب کرکے پیش کیا جارہا ہے۔بنیادی طور پر یہ تمام نکات شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی kکی کتاب ’’شجرہ چشتیہ صابریہ امدادیہ خلیلیہ مع ابتدائی معمولات‘‘ سے ماخوذ و مستفاد ہے۔ اللہ تعالی اسے اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے ۔ آمین!
بیعت سے پہلے کے معمولات
1۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ توبہ کریں اور پھر جن امور سے توبہ کی گئی ہے ان سے بچنے کا اہتمام کیا جائے اور کوئی گناہ دوبارہ ہوجائے تو دوبارہ جلد از جلد اس سے توبہ کی جائے۔ توبہ کی تکمیل میں یہ دو امور شامل ہیں:
(الف) اپنے ذمہ لوگوں کے جو جانی یا مالی حقوق ہوں ان کو ادا کرنے یا معاف کرانے کا اہتمام رکھیں۔ آخرت میں بندوں کے حقوق ادا کئے بغیر چارہ کار نہیں۔ حقوق میں مسلمان کی آبرو ریزی، علماء کی اہانت، کسی کو برا بھلا کہنا، غیبت، چغل خوری وغیرہ سب شامل ہیں، مالی حقوق میں کسی کا حق دبا لینا، دنیوی قوانین کی آڑ پکڑ کر کسی صاحبِ حق کا حق ادا نہ کرنا، رشوت، سود وغیرہ سب داخل ہیں، ان حقوق میں مسلمان اور ذمی کافر میں کوئی فرق نہیں بلکہ ذمیوں کا معاملہ اس سلسلہ میں مسلمانوں سے بھی زیادہ سخت ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ جو شخص کسی ذمی پر ظلم کرے یا اس کی آبرو گرائے یا اس کی برداشت سے زائد اس پر کوئی مطالبہ رکھے یا بغیر خوش دلی کے اس کی کوئی چیز لے تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے دعویٰ کرنے والا ہوں گا۔
(ب) اسی طرح اﷲ کے جو حقوق ذمہ میں ہوں ان کو بھی بہت اہتمام سے ادا کیا جائے جن میں قضا نمازیں قضا روزے کفارہ زکوٰۃ حج وغیرہ سب شامل ہیں یہ خیال غلط ہے کہ توبہ سے یہ سب چیزیں معاف ہوجاتی ہیں توبہ سے تاخیر کا گناہ معاف ہوجاتا ہے لیکن اصل حق ذمہ میں باقی رہتا ہے ان میں کوتاہی سے دین و دنیا دونوں کا نقصان ہے۔
2۔ اتباع سنت کا زیادہ سے زیادہ اہتمام رکھیں۔ عبادات میں، اخلاق میں، معمولات میں اس کی جستجو رکھیں کہ حضور اقدس ﷺ کا کیا معمول تھا، حتیٰ کہ کھانے پینے تک میں حضور ﷺکی مرغوب چیزوں کی تحقیق کرکے اتباع کی کوشش کریں۔
3۔ اہل اﷲ کی اہانت سے بہت زیادہ بچیں کہ اس سے سخت ترین بے دینی میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ ان میں صحابہ کرام، اولیاء عظام ائمۂ مجتہدین و محدثین و علماء حق سب ہی شامل ہیں۔
4۔ جو صاحب حافظ قرآن ہوں وہ کم از کم تین پارے روزانہ کا معمول رکھیں۔ جو حافظ نہ ہو وہ ایک پارہ روزانہ کا معمول رکھیں اور جو بالکل ہی قرآن پاک پڑھے ہوئے نہ ہوں وہ ایک وقت میں یا دو وقتوں میں ایک گھنٹہ روزانہ قرآن پاک پڑھنے میں ضرور خرچ کریں، اپنی قریبی کسی مکتب کے حافظ صاحب یا مسجد کے امام صاحب سے تھوڑا تھوڑا روزانہ پڑھ لیا کریں۔
5۔ بعد نماز فجر روزانہ ایک مرتبہ سورۂ یٰسین پڑھ کر اپنے سلسلہ کے تمام مشائخ کو ایصالِ ثواب کیا کریں اور بعد عشاء سورۂ تبارک الذی اور جمعہ کے دن سورۂ کہف ہمیشہ پڑھا کریں سوتے وقت آیۃ الکرسی اور چاروں قل پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیا کریں۔
6۔ محرم کی ۹ اور ۱۰ اور ذی الحجہ کے اول کے نو (۹) دن بالخصوص عرفہ یعنی نویں تاریخ اور شعبان کی پندرہویں کے روزہ کا خصوصیت سے لحاظ رکھیں اور ہوسکے تو ہر ماہ میں ایام بیض یعنی تیرہ، چودہ، پندرہ، نیز پیر، جمعرات کا روزہ بھی بہتر ہے لیکن جو لوگ تعلیم، تبلیغ وغیرہ دین کے اہم کاموں میں مشغول ہیں وہ اس کا لحاظ رکھیں کہ ان نفل روزوں سے دین کے اہم کام میں حرج نہ ہو۔
7۔ ہر نماز کے بعد اور سوتے وقت تسبیحات فاطمہ کا اہتمام رکھیں اور صبح و شام استغفار، درود شریف، کلمہ طیبہ اور سوئم کلمہ کی تین تین تسبیح پڑھا کریں۔ جو لوگ کسی دینی کام تعلیم و تبلیغ میں مشغول ہیں ان کے لیے ایک ایک تسبیح کافی ہے کہ یہ دینی مشغلے خود بہت اہم ہیں۔
8۔ ہر تین ماہ کے بعد اپنے احوال کی اطلاع دیتے رہیں اور یہ بھی لکھیں کہ اس پرچہ کے معمولات میں سے کس کس نمبر پر کس درجہ میں عمل ہورہا ہے۔
0۔ کم از کم چھ ماہ ان معمولات پر اہتمام سے عمل کرلینے کے بعد ذکر دریافت کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ رغبت بھی ہو اور دماغ اور اوقات میں گنجائش بھی ہو۔ ذکر شروع کرنے میں تاخیر میں حرج نہیں لیکن شروع کرنے کے بعد چھوڑنا یا لاپرواہی برتنا مضر ہوتا ہے۔
بیعت کے بعد کے معمولات
یہاں چند وہ باتیں لکھی جاتی ہیں جن کو اختیار کرنے سے بیعت کا اصل مقصد اور اس کا پورا نفع حاصل ہوتا ہے ورنہ صرف برکت ہی حاصل ہوتی ہے ، ترقی نہیں ہوتی۔
۱۔ بیعت کے وقت حضرت شیخ الحدیث نور اﷲ مرقدہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’بیعت کچھ کرنے کے لیے ہوتی ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی مکتب یا مدرسہ میں داخلہ کے لیے اپنا نام لکھوا دیا جائے۔ اب داخلہ کے بعد اگر کوئی مدرسہ ہی نہ جائے یا کچھ پڑھے پڑھائے ہی نہیں تو ظاہر ہے کہ اسے کیا آئے گا۔‘‘
۲۔ اپنے شیخ کے متعلق اس کا یقین رکھے کہ دنیا میں اس کے علاوہ مجھ کو مقصود تک کوئی نہیں پہنچا سکتا۔
۳۔ دین کے مختلف شعبے ہیں مثلاً تعلیم و تدریس تبلیغ تصنیف معاشرت و سیاست وغیرہ، ان میں مشغول حضرات کا ان ہی شعبوں کے متعلق اپنے شیخ سے خط و کتابت یا ملاقات اور صحبت کا اپنی اصلاح کے لیے کافی سمجھنا اور اپنی اصلاح باطن سے غافل ہوجانا درست نہیں بلکہ ان حضرات کو اپنے تزکیہ اور اصلاح کے سلسلہ میں ایک خصوصی تعلق اس لائن کا بھی ہونا چاہیے جس سے شیخ کے علم میں یہ بات واضح ہوجائے کہ اس شخص کو مجھ سے اس لائن کی طلب بھی ہے تاکہ وہ مرید کی اصلاح کی طرف متوجہ رہے۔
۴۔ اس سے بھی زیادہ اپنی اصلاح کے سلسلہ میں مغالطہ ان حضرات کو لگتا ہے جو اپنی باطنی اصلاح کے لیے صوفیاء کے اذکار و اشغال اور کثرت عبادت ہی کو اصل سمجھتے ہیں اور شیخ کے ذریعہ اپنی اصلاح سے غافل رہتے ہیں اورخود کو مکمل طور پر شیخ کے سپرد نہیں کرتے۔ حالانکہ خود کو مکمل طور پر شیخ کے سپرد کرنے کا نام مرید ہونا ہے چنانچہ شیخ اکبر فرماتے ہیں کہ’’ اگر تیرے کام دوسرے کی مرضی کے تابع نہیں ہوتے تو تُو کبھی بھی اپنے نفس کی خواہشات سے انتقال نہیں کرسکتا گو عمر بھر مجاہدہ کرتا رہے۔ ‘‘
۵۔ بیعت کے وقت شیخ سے حسن عقیدت ہوتی ہی ہے لیکن اس کی ہمیشہ حفاظت کرنے کی ضرورت ہے ہر ایسی چیز سے پرہیز کریں جس سے حسنِ ظن میں فرق آتا ہو ۔بزرگوں نے فرمایا کہ شیخ کو جس مقام کا گمان کرے گا اسی مقام کا فیض حاصل ہوگا اگرچہ حقیقت میں شیخ کا کوئی مقام نہ ہو۔ شیخ سے تعلق رکھنے میں ایک ضروری احتیاط یہ ہے کہ جب تک شیخ سے گہری محبت پیدا نہ ہوجائے اس وقت تک اس سے اپنا تعلق صرف پیری مریدی ہی کی لائن کا رکھے اور صرف اسی لائن کے اقوال افعال و احوال سے سرور کار رکھے باقی دوسری لائنوں کی اور ان کی خانگی باتوں سے بے تعلق بلکہ بے خبر رہنے کی کوشش کرے کیونکہ یہ ان کا اپنا بشری حصہ ہے اور شیخ چاہے کتنا ہی بڑا ہو معصوم نہیں ہوتا لا محالہ ان کے درجہ کے لحاظ سے اس میں کچھ کدورتیں ہوسکتی ہیں اور اکثر باتیں گو واقعہ میں قابلِ اشکال نہ ہوں مگر بدفہم مرید اور کمزور محبت والے کے لیے قابل اشکال ہوں گی اور جب آدمی اپنی توجہ کو ان کی طرف چلائے گا تو بسا اوقات اعتراض پیدا ہوگا جو بُعد اور محرومی کا باعث بن جائے گا۔
۶۔ آج کل چونکہ فتنوں کا زور ہے اور چونکہ عقائد کا مسئلہ بہت ہی اہم ہے اور طبائع میںآزادی آگئی ہے اور تقلید اور اتباع سلف صالحین میں مزاجاً کمزوری آگئی ہے اس لیے جو لوگ اپنے آپ کو اہل حق کی طرف منسوب کرتے ہیں ان میں بھی آئے دن کوئی نہ کوئی نیا خیال اور نئے عقیدے ظاہر ہوتے رہتے جن کو لوگ قبول کرتے رہتے ہیں مثلاً حیات النبی ﷺ کا انکار، یزید کی مدح سرائی میں مبالغہ اور مدح سرائی کی دعوت اور صحابہ کرام پر نکتہ چینیاں وغیرہ ، اس لیے ہمارے سلسلے میں بیعت ہونے والوں کے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ ہر بات میں اپنے اکابر حضرت گنگوہیk، حضرت سہارنپوری رحمہ اﷲ حضرت شیخ کا مسلک معلوم کرکے اسی پر قائم رہے۔
۷۔ اس راستہ میں انقیاد (شیخ کی اطاعت) کی بہت ضرورت ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے فیوض و انعامات کا واسطہ شیخ ہے۔ اس میں مرید کی طرف سے ذرا سی بھی نا فرمانی اور اعتراض کی صورت اﷲ تعالیٰ کے انعام و کرام کے منقطع ہوجانے کا باعث بن جاتاہے اور شیخ کی اطاعت شیخ کے ساتھ افتقاری محبت سے پیدا ہوتی ہے یعنی ایسی محبت جس سے محبوب کی طرف افتقار اور دلی احتیاج پائی جاتی ہو۔ان چار باتوں کا خلاصہ اس شعر میں بیان کیا گیا ہے:
چار چیزیں لازمی ہیں استفادہ کے لیے
اطلاع واتباع و اعتقاد و انقیاد
ذکر :
ذکر شروع کرنے سے پہلے گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کر سلسلے کے تمام بزرگوں کو ایصال ثواب کریں۔ اس کے بعد یہ ذکر کریں۔
ابتدائی ذکر برائے عوام:
لا الہ الا اﷲ (دو تسبیح) اللّٰہْ (تین تسبیح)
ابتدائی ذکر برائے طلبہ:
لا الہ الا اﷲ (ایک تسبیح) اﷲ (ایک تسبیح)
ذکر برائے منتھی:
(ترقی پانے والے مریدین کے لیے)
لا الہ الا اﷲ (دو تسبیح) الا اﷲ (چار تسبیح)
اللہُ اللّٰہْ(چھ تسبیح) اللّٰہْ (ایک تسبیح)
یہ تسبیحات صبح اور شام یعنی دن میں دو مرتبہ کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ ورنہ کم از کم ایک مرتبہ کرنا لازمی ہے۔
Load/Hide Comments