سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!
میں نے سنا ہےکہ بیوی اور شوہر کا نکاح مرنے کے بعد ٹوٹ جاتاہے اور وہ ایک دوسرے کے لیے نا محرم ہو جاتے ہیں۔ اگر شوہر کا انتقال ہو گیا تو بیوی میت کے پاس بیٹھ نہیں سکتی نہ اُسے ہاتھ لگا سکتی ہے
تو اگر کسی جگہ پر میاں بیوی اکیلے ہی رہتے ہوں اور اگر ایک فریق انتقال ہو جاۓ تو دوسرا کیا کرے ۔فرض کیجیےکہ اگر شوہر کا انتقال ہو جاۓ تواس صورت میں بیوی کیا کرے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
واضح رہے کہ بیوی کے انتقال کی صورت میں چونکہ نکاح ختم ہو جاتا ہے، اس لیے شوہر کا بیوی کو چھونا یا ہاتھ لگانا منع ہے،تاہم فتنے کا خوف نہیں ،اس لیے شوہر دیکھ سکتا ہے۔
اب اگر عورت کو غسل دینے وال کوئی عورت نہ ہو تو محرم مرد تیمم کراۓ گا،اگر وہ بھی میسر نہ ہوتو پھر
مجبوری کی صورت میں شوہر کپڑا ہاتھ پر لپیٹ کر تیمم کراۓ گا۔
البتہ شوہر کے مرنے کے بعد جب تک عورت کی عدت ختم نہیں ہوتی تو نکاح باقی رہتا ہے، اس لیے بیوی شوہر کو دیکھ بھی سکتی ہے اور غسل بھی دے سکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1.ویمنع زوجہا من غسلہا ومسہا لا من النظر إلیہا علی الأصح ․․․․․․ وہی لاتمنع من ذلک ․․․․․․ قلت: أي لأنہا تلزمہا عدة الوفاة ولولم یدخل بہا، وفی البدائع: المرأة تغسل زوجہا لأن إباحة الغسل مستفادة بالنکاح، فتبقی مابقي النکاح والنکاح بعد الموت باقی إلی أن تنقضي العدة الخ (درمختار مع الشامی: 3/90، 91، ط: زکریا) ۔
2.ولايغسل الرجل زوجته، والزوجة تغسل زوجها دخل بها أو لا بشرط بقاء الزوجية. (البحر الرائق،کتاب الصلاة، باب الجنائز: 306/2)
3.ولعل وجهه أن النظرأخف من المس فجاز لشبهة الاختلاف، والله أعلم. (الشامي: 90/3 ….. الفتاوى الخانية:187/1)
4. لو ماتت امراۃ مع الرجال تیمموھا کعکسہ بخرقۃ و ان وجد ذو رحم محرم تیمم بلا خرقۃ.(نور الایضاح مع مراقی الفلاح، کتاب الصلاۃ باب احکام الجنائز ص 572)
5. فتمنع من غسلہ لو بانت قبل موتہاَو ارتدت بعدہ۔
(رد المحتار علی الدرمختار ، باب صلاۃ الجنازۃ 107/3)
فقط
واللہ اعلم بالصواب
17 جمادی الاولی 1443ھ
22دسمبر 2021 ء