سوال: ایک سنی گھرانے کا لڑکا شیعہ ہوجائے تو اس کی میراث کا حکم بدل جائے گا یا وہی قوانین ہوں گے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
اگر مذکورہ شخص شیعہ حضرات کے اس فرقہ سے متعلق ہوچکا ہے جن پر ان کے کفریہ عقائد کی وجہ سے کفر کا حکم لگایا جاتا ہے( مثلاً: قرآن کریم میں تحریف کا قائل ہونا ، یا یہ عقیدہ رکھنا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے وحی لانے میں غلطی ہوئی یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کو حق سمجھنا، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرنا،حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے کے قائل ہونا)تو اختلافِ مذہب کی وجہ سے وہ اپنے سنی رشتہ داروں کی میراث کا مستحق نہیں ہو گا۔
1۔ “لن یجعل اللّٰہ للکافرین علی مؤمنین سبیلا”
(النساء:141)
ترجمہ: اللہ تعالی کافروں کو مسلمانوں پر کوئی راہ نہ دے گا۔
2۔ ترمذی شریف کی روایت ہے:
قال النبي ﷺ: لا يرث المسلم من كافر، ولا الكافر من مسلم۔
(حدیث نمبر: 2107)
ترجمہ: کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
3۔”واختلاف الدین أیضا یمنع الإرث والمرادبہ الاختلاف بین الإسلام والکفر۔ “
(الفتاوی الہندیۃ، کتاب الفرائض، الباب الخامس في الموانع، مکتبۃ زکریا دیوبند قدیم ۶/۴۵۴)
4۔ “و حکم الاسیر کحکم سائر المسلمین مالم یفارق دینہ فان فارق دینہ فحکمہ کحکم المرتد۔”
(الفتاوی الھندیۃ: 6/ 457)
5۔” اگر کوئی شیعہ قرآن مجید میں تحریف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیل امین سے وحی پہنچانے میں غلطی کا عقیدہ رکھتاہو، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتاہو یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتاہو، یا بارہ اماموں کی امامت من جانب اللہ مان کر ان کو معصوم مانتاہو یا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ” بدا” کا عقیدہ رکھتاہو (یعنی -نعوذباللہ- کبھی اللہ تعالیٰ سے بھی فیصلے میں خطا ہوجاتی ہے) تو ایسا شیعہ اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔”
(فتاوی جامعۃ العلوم الاسلامیہ)
فقط۔ واللہ اعلم بالصواب