سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شوہر کے دوست شیعہ ہیں اور انہوں نے اپنی بیٹی کے نکاح میں مدعو کیا ہے۔نکاح کی تقریب امام بارگاہ میں ہے اور اس کے بعد کھانے کا انتظام ہے. تو کیا اس تقریب میں شرکت اور کھانا جائز ہے ؟
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!
واضح رہے کہ عام حالات میں میں شیعہ حضرات کی دعوت قبول کرنا جائز ہے، البتہ جہاں دعوت قبول کرنے سے عقائد کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو یا اہل تشیع کے مذہب کی حوالہ افزائی ہوتو پھر وہاں دعوت قبول نہیں کرنی چاہیے۔
مذکورہ صورت میں چونکہ نکاح امام بارگاہ میں ہے اور وہاں نکاح کی رسومات کی ادائی کا طریقہ بھی معلوم نہیں،لہذا دعوتِ نکاح میں شریک ہونے سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔
چنانچہ کتاب النوازل جلد 16 میں ہے:
“شیعوں کا جو فرقہ خلافِ شرع عقائد رکھتا ہو اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف عظام پر تبرا کرتا ہو تو ایسے لوگوں سے سنیوں کا میل جول اور اُن کی تقریبات وغیرہ میں اِس طرح شرکت کرنا کہ عوام کے ذہن سے اُن کے مذہب کی برائی نکل جائے ہرگز جائز نہیں ہے۔ اِسی طرح اُن کے کسی پیر یا مقتداء کا باقاعدہ اکرام بھی سنیوں کی طرف سے نہیں ہونا چاہئے، اور اُن سے قرابت اور رشتہ داری بھی درست نہیں ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ 6/ 75، 6/ 131)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
(1) وَلَا تَرْكَنُوْآ اِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(هود: 113)
(2) کل کافر تاب فتوبتہ مقبولۃ في الدنیا والآخرۃ إلا جماعۃ الکافر بسب النبي وسب الشیخین أو أحدہما۔ الخ (مرقاۃ، باب مناقب الصحابۃ، الفصل الأول، مکتبہ إمدادیہ ملتان 11/ 273، حاشیہ بخاري شریف 1/ 515)
(3)”قال مالک بن دینار : أوحی الله إلی النبي من الأنبیاء أن قل لقومک: لا یدخلوا مداخل أعدائي، ولا یلبسوا ملابس أعدائي، ولا یرکبوا مراکب أعدائي، ولا یطعموا مطاعم أعدائي، فیکونوا أعدائي، کما هم أعدائي”. (الزواجر عن اقتراف الکبائر :ابن حجر مکی ہیثمی، 1/15، مقدمہ، ط: دارالمعرفۃ، بیروت)
(4) “وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو كان ينكر صحبة أبي بكر الصديق أو يقذف عائشة الصديقة فهو كافر؛ لمخالفة القواطع المعلومة من الدين بالضرورة”. (ردالمحتار :3 / 46، سعيد)
فقط واللہ اعلم بالصواب
21/دسمبر/۲۰۲۱
۱۶/جمادی الاولیٰ/۱۴۴۳ھ