سوال:اگر دودھ پیتا بچہ کسی کے کپڑوں پر پیشاب کردے تو کیا اس کا دھونا ضروری ہے یا شیرخوار بچے کا پیشاب پاک ہے؟
الجواب حامدة و مصلیة
چھوٹا شیرخوار بچہ یا بچی جس نے ابھی کھانا پینا شروع نہ کیا ہو اس کے پیشاب کے بارے میں سب علماء کا اتفاق ہے کہ ناپاک ہے اسی لیے اگر بچہ یا بچی کپڑوں پر پیشاب کردیں تو اس کا دھونا لازم ہے.البتی لڑکے کے پیشاپ کو دھونے کے طریقے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں جس میں علماء احناف کا مشہور اور مختار مذہب یہ ہے کہ دونوں لڑکا اور لڑکی دونوں کے پیشاب کو دھویا جائے گا کسی فرق کے بغیر لیکن چونک احادیث میں لڑکے کے بول کے بارے میں مختلف الفاظ آئے ہیں جس کی وجہ سے علماء احناف نے لڑکے کے پیشاب کو دھونے میں غسل خفیف کا حکم دیا تاکہ احادیث کے تمام الفاظ پر عمل ہوجائے ,اور اس سے تمام روایات کا تعارض بھی ختم ہوجاتا ہے ,چنانچہ آپ علیہ الصلوة السلام کا قول :
“عن عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ عنہم(انہ)قال:اخبرتنى (ام قیس بنت محصن)ان ابنھا ذاک فی حجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فدعا ,رسول اللہ بماء فنضحہ علی ثوبہ ولم یغسلہ غسلا” (اخرجہ مسلم:١٣٩/١)
کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم:
“عن ام فضل مرفوعا:انما یصیب علی بول الغلام ویغسل بول الجاریہ”. (آثار السنن ١٨:١)
كما قال النبی صلوة السلام :
“استنزھوا عن البول”
کما ذکر فی اعلاء السنن(١/٤١٠)
قولہ:”عن ام فضل الخ
قلت دلالتہ علی وجوب
صب الماء علی بول الغلام ظاھرة,وھو غسل الواجب
عندنا,قال الامام محمد فی موطاہ:قد جاءت رخصة (ای تخفیف)فی بول الغلام اذا کان لم یاکل الطعام امر یغسل البول الجاریہ و غسلھما جمیعا احب الینا”.
قال فی تعلیق الممجد:
حمل اصحابنا النضح و الرش علی الصب الخفیف بغیر مبالغہ وذالك ,والغسل علی الغسل فاستویا فی الغسل,یویدہ ما روی ابو داود عن الحسن عن امہ انہا ابصرت ام سلمہ تصب علی بول الغلام مالم یطعم,فاذا طعم غسلتہ و کانت یغسل بول الجاریہ”.
وفی الفتاوی الھندیہ(١/٤٢)
“یخرج من بدن الانسان مما یوجب خروجه الوضو أو الغسل
فھو مغلظ کلغائط والبول…….وکذلک بول الصغیر و الصغیرة اکلا و لا وکذا فی الختیار شرح مختار”.
حوالا جات از فتاویآپ کے مسائل اور ان کا حل(١/٨٤):
شیر خوار بچہ اگر کپڑوں پر پیشاب.کردے تو کپڑوں کو دھونا چاہیے یا ویسے پانی گرادینے سے صاف ہوجائینگے؟
ج:بچے کا پیشاب ناپاک ہے اس لیے کپڑے کا پاک کرنا ضروری ہے اور پاک کرنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ پیشاب کی جگہ پر اتنا پانی بہادیا جائے کہ اتنے پانی سے وہ کپڑا تین مرتبی بھیگ سکے .
فتاوی محمودیہ(٥/٢٢٧):
س:دودھ پیتے بچے کا پیشاب پاک مانا گیا ہے یا ناپاک یعنی اس کے ہوتے ہوئے نماز پڑھ سکتا ہوں?
ج:ناپاک ہے,بغیر پاک کیے نماز درست نہیں.
“وبول غیر ماکول ولو . من صغیر لم یطعم……اھ(الدرالمختار)
قولہ( لم یطعم )ای لا یاکل,فکا بد بہ من غسلہ الخ”(رد المحتار ٣١٨/١)
“فالغلیظة کالخمر……….بول مالایوکل لحمه کالادمی ولو رضیعا”(مراقی الفلاح)وکذا فی الفتاوی العمگیریہ(٤٦/١)
فتاوی دارالعلوم دیوبند(١/٢٣٥)
س:کیا شیر خوار بچی کا پیشاب نجس ہے؟
ج:بول الصبی نجس است لقولہ علیہ السلام “استنزھوا عن البول”
بہرحال تمام تر فتاوی اور حوالا جات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ علماء احناف کا اصل اورمختار مذہب یہی ہے کہ بچہ اور بچی چاہے وہ دودھ پیتا ہو یا کھانا کھاتا ہو دونوں کے بول میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں کے پیشاب کو دھونا لازمی ہے لیکن احادیث میں لڑکے کے بول کے بارے میں مختلف الفاظ آئے ہیں جس کی وجہ سے شیر خوار لڑکے کے بارے میں ہمارے ائمہ نے رخصت کے طور پر غسل خفیف کا حکم دیا تاکہ احادیث کے تمام الفاظ پر عمل.ہوجائے اور دھونا بہرحال لازم ہے صرف فرق یہ ہے کہ لڑکی کے بول کو مبالغے کے ساتھ اور لڑکے کے بول کو ہلکا دھویا جاسکتا ہے.
واللہ اعلم بالصواب
بنت معین
٢٨ ربیع الثانی-١٤٣٩
١٢-جنورى-٢٠١٨