سینیٹر طلحہ صاحب کی رہائش گاہ پر
آج حضرت نے بتایا کہ میں ڈیڑھ سال وفاقی شرعی عدالت یعنی فیڈرل شریعت کورٹ میں اور 17 سال سپریم کورٹ کے شریعہ اپیلیٹ بینچ میں بطور جج رہا. یہ سپریم کورٹ کے کسی جج کی طویل ترین میعاد ہے. درمیان میں ایک مرتبہ محترمہ بے نظیر صاحبہ نے، برخواست کردیا، پھر فاروق لغاری صاحب نے دوبارہ درخواست کی اور میں نے قبول کرلی. انہوں نے کہا کہ آپ سے بہت زیادتی ہوئی کہ آپ جیسی قابل شخصیت کو برخواست کردیا گیا. میں نے کہا کہ میرے ساتھ کوئی زیادتی نہیں.
.ہوئی، کیونکہ میں عہدے کا طالب نہیں ہوں.
پھر جب میں نے ربوا کےخلاف تاریخ ساز فیصلہ دیا تو اس پر مشرف صاحب نے مجھے فارغ کردیا یہ فیصلہ لکھنے والے باقی ججز میں سے 3 اس لیے جا چکےتھے کہ انہوں نے پی-سی-او کے تحت حلف لینے سے انکار کردیا تھا. اب انہیں اپنے راستے کا کانٹا میں ہی نظر آیا.
مجھے فارغ کرنے کے بعد 2 اور لوگوں کو لائے، جن کے ذریعہ سود کے خلاف اس فیصلے کو ریویو کروایا اور اسے کالعدم کردیا.
میں نے عرض کیا حضرت بحیثیت قانون اور شریعت کے طالب علم کے جب ہم پاکستان کی آئینی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ ایک دو لوگوں کے فیصلے کی وجہ سے ملک و قوم کی تقدیر اور خواہشات پامال ہوجاتی ہیں.
اس پر حضرت نے بڑی درد مند گفتگو فرمائی.
فرمایا: میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں دوسروں سے زیادہ ہماری اپنی یعنی دینی جماعتوں، مدارس اور تحریکوں کی کوتاہی ہے.
میں نے اس عرصہ کے دوران لوگوں کی منتیں کیں کہ آپ ایک کمیٹی بنوائیں جو پاکستان کے تمام قوانین کا جائزہ لے کر یہ متعین کرے کہ کون سے قوانین قرآن و سنت کے خلاف ہیں، پھر ان میں ترمیم تجویز کرے. لیکن کسی نے اس پر توجہ نہ کی، جمعیت علماء اسلام جمعیت علماء پاکستان، تنظیم اسلامی، اہل مدارس، جماعت اسلامی سب سے میں نے بار بار کہا. ڈاکٹر اسرار صاحب مرحوم میرے شریعت کورٹ پر جانے کے ہی خلاف تھے اور یہ بات انہوں نے عوامی خطاب میں کہی. اس کی وجہ یہ بتاتے کہ چونکہ شریعت کورٹ کے دائرہ میں عائلی قوانین نہیں اس لیے یہاں جانے کا کوئی فائدہ نہیں، بلکہ اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے. پھر بحمد اللہ میرے ہی ایک فیصلے کے نتیجے میں عائلی اور مالیاتی قوانین بھی شریعت کورٹ کے دائرہ اختیار میں داخل ہوگئے. پھر میری ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ اب تو عائلی قوانین داخل ہوگئی، اب آپ کمیٹی بنا دیجیے. انہوں نے فرمایا میں کل ہی یہ کام کرتا ہو ں، لیکن کچھ نہ ہوا.
پورے 18 سالہ عرصہ میں مجھے یاد نہیں کہ کسی نے یہ درخواست دی ہو کہ فلاں قانون قرآن وسنت کے خلاف ہے، اس میں ترمیم کی جائے. جن قوانین میں ہم نے ترمیم کی وہ ان درخواستوں کی بنا پر تھی جو قادیانیوں، ملحدوں، اہل تشیع حضرات نے دی اور ہم نے اس سے اپنا راستہ نکال کر قانون درست کردیا. یا کسی کی کہیں گوٹ اٹک گئی تو اس نے درخواست دائر کی.
فرمایا: میں نے ان تمام ذمہ داران کو وقتا فوقتاً سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعہ خاموشی سے بغیر کسی ہنگامے کے اسلامائزیشن کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے.
اس کی دلیل دیتے ہوئے بتا یا کہ صرف میرے وہاں ہوتے ہوئے 200 قوانین جو قرآن و سنت کے خلاف تھے انہیں تبدیل کیا گیا، ان میں سے بیشتر میرے فیصلوں سے ہی تبدیل ہوئے، اور بغیر کسی سیاسی ہنگامہ آرائی کے. مثلا:
شفعہ کا قانون (pre-emption )
ایسا تھا جس کی وجہ سے ہزاروں کیس پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں پھنسے ہوئے تھے. لوگوں کہ جائیدادیں سالوں سے معلق تھیں. الحمد للہ اس کو میں نے درست کیا تو ایک فیصلے سے 2400 کیس خارج ہوگئے.
-اسی طرح جواgambling کی کھلی عام اجازت تھی وہ ختم کی. – – پھر ایکویزیشنlaw of limitation کا ایک ظالمانہ قانون تھا جس کی رو سے اگر کوئی شخص 12 سال کسی زمین پر قابض اور غاصب رہے تو وہ اس کا مالک بن جاتا تھا، اس قانون کو ختم کیا.
پھر ہمارے کنٹریکٹ ایکٹ، یعنی قانون معاہدات و بیوع میں یہ بات داخل کروائی کہ خلاف شریعت معاہدہ اور خرید و فروخت کا معاملہ بھی void یعنی غیر قانونی ہوگا.
پھر فرمایا: ابھی بھی یہ کام کرنے کا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت جج بنچ کی کمپوزیشن ایسی ہے کہ درخواست دینے کا فائدہ نہیں.
اب علماء کی 2 سیٹیں خالی ہیں.
سپریم کورٹ شریعہ بینچ میں 2 میں سے صرف ایک عالم ہے.
ان مناصب کی اہمیت سمجھ کر اگر اہل لوگ اس پر آئیں اور اس کے لیے باقاعدہ کوشش کی جائے تو بہت بڑا کام ہوسکتا ہے.
ناقل: احمد افنان