دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:170
الجواب حامدا و مصلیا !
شرعی لحاظ سے ووٹ دینے نہ دینے سے متعلق بانی جامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالی نے ” رسالہ ووٹ اور ووٹر اور امیدوار کی شرعی حیثیت ” میں درج ذیل تفصیل بیان فرمائی ہے :
قرآن حدیث میں جس طرح جھوٹی شہادت دینے سے منع فرمایا ہے اسی طرح سچی شہادت کو لازم واجب فرمایا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے {کونوا قوامین للہ شھداء بالقسط} مائدۃ :٨
دوسری جگہ باری تعالی کا ارشاد ہے : {کونوا قوامین للہ شھداء بالقسط}نساء ١٣۵ ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ سچی شہادت سے جان نہ چھڑائیں، اللہ تعالی کے لیے ادائیگی شہادت کے لیے کھڑے ہوجائیں، تیسری جگہ سورة طلاق میں ارشاد ہے کہ” اللہ تعالی کے لیے سچی شہادت قائم کرو ” ایک آیت میں ارشاد ہے کہ ” سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ ہے” مزید ارشاد ہے کہ شہادت کو نہ چھپاؤ جو شہادت کو چھپائے گا اس کا دل گناہ گار ہے”۔ ان تمام آیات نے مسلمانوں پر فریضہ عائد کردیا ہے کہ سچی گواہی سے جان نہ چھڑائیں، ضرور ادا کریں، اور آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آرہی ہیں، ان کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نیک صالح افراد عموما ووٹ دینے سے گریز کرنے لگے ہیں جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدہ آرہا ہے، کہ ووٹ عموما ان لوگوں کے آتے ہیں، جو چند ٹکوں میں خرید لیے جاتے ہیں، اور ان لوگوں کے ووٹوں سے جو نمائندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں، وہ ظاہر ہے کس قماش اور کس کردار کے لوگ ہوں گے۔
اس لیے جس حلقہ میں کوئی بھی امیدوار قابل اور نیک معلوم ہو اسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی حرام اور پوری قوم و ملت پر ظلم کے مترادف ہے اور اگر کسی حلقہ میں کوئی بھی امیداور صحیح معنوں میں قابل اور دیانت دار نہ ہو، مگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیت کا اور خدا ترسی کے اصول پر دوسروں کی نسبت غنیمت ہو تو تقلیل شر اور تقلیل ظلم کی نیت سے اس کو بھی ووٹ دینا جائز ہے، بلکہ مستحسن ہے، جیسا کہ نجاست کے پورے ازالے پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تقلیل نجاست کو اور پورے ظلم کو دفع کرنے کا اختیار نہ ہونے کی صورت میں تقلیل ظلم کو فقہاء رحمہم اللہ نے تجویز فرمایا ہے۔ ( مقالات مفتی اعظم، ص: 210 )
مختصر یہ کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے، جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور کتمان حق، اور بر موقع گواہی چھپانے کے مترادف ہے، جبکہ پاکستانی قانون مطابق ووٹ ڈالنا شہری کی ذمہ داری ہے اس لیے آپ کے حلقہ کو انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریہ کا حامل اور دیانت دار نمائندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ اور کوئی دیانت دار نہ ملے تو تو مذکورہ خدا ترسی کے اصول کی بنیاد پر جو بہتر ہو اسے ووٹ دے دینا مستحسن ہے۔ تاہم اگر حلقہ انتخاب میں امیدوار نظریہ اسلام کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہو، تو اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے، جو گناہ کبیرہ ہے۔ ایسے شخص کو ووٹ نہ دیا جائے بہرحال ووٹ دینے میں مذکورہ تفصیل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ووٹ دینے نہ دینے کا فیصلہ کیا جائے۔ البتہ مذکورہ تفصیل کا لحاظ رکھے بغیر بالکلیہ انتخابات سے کنارہ کشی اختیار کرنا درست نہیں، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
محمد حسن سکھروی عفا اللہ عنہ
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/631422553893660/