فتویٰ نمبر:556
سوال:محترم ومکرم مفتی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مفتی صاحب کیاشادی میں جولوگ لفافےیاتحفہ دیتےہیں توکیایہ لیناصحیح ہے؟ کیا جس گھرمیں شادی ہوتووہاں سب رشتہ دارتین چاردن پہلےسےرکتےہیں توکیایہ رکناصحیح ہے؟اوراستاد صاحب یہ بتلادیں کہ شادی سادگی سےکس طرح کرنی چاہیےکیونکہ اگرسادگی سےکرتےہیں تولوگ کہتےہیں کہ ملاّنےبہت سادگی سےکرتےہیں توشادی کس طرح کرنی چاہیے کہ سادگی بھی ہولیکن خشک مزاجی بھی نہ ہو؟
الجواب حامدا ومصلیا
واضح رہےکہ شادی میں سادگی اپنانا،زائداخرجات ،جاہلانہ رسومات اورفضول خرچیوں سےاجتناب کرناشرعاًمطلوب ہے،(۱)اس بارےمیں معیارنبی کریم ﷺاورآپکے صحابہ رضوان اللہ علیہم کےاقوال وافعال ہیں ۔
چنانچہ ارشادنبوی ﷺہے:
ان اعظم النکاح برکۃ ایسرہ مؤنۃ(مشکوٰۃ ص:۲۶۸)
یعنی جوشادی جتنی سادگی اورکم اخرجات کےساتھ ہوگی وہ اتنی ہی زیادہ بابرکت ہوگی ۔
پھرآپ ﷺ نےاپنےطرزِعمل سے اس کی اچھی طرح وضاحت بھی فرمادی کہ نکاح میں سادگی اس طرح ہوکہ نہ تو اس سےپہلےمنگنی مہندی ابٹن وغیرہ کی رسومات ہوں اور نہ ہی بہت لمبے چوڑے ولیمےاوروداع کی دعوتیں ہوں ،بلکہ رخصتی کےبعد حسبِ موقعہ اور حسبِ حیثیت ولیمہ کی دعوت کرکے عزیزواقارب کواس خوشی میں شریک کرلیا جائے،آپ ﷺ کی ذات ہمارےلئےاسوہ حسنہ ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (سورۃ الاحزاب)
لہذا ہرشخص حسبِ ہمت اورطاقت اس سنت کوزندہ کرنےکی سعی کرے،اورجاہلانہ رسومات سےخودبھی اجتناب کرےاوردوسروں کوبھی اس سےدوررکھے۔
اس مختصرتمہید کےبعدسوالات کےجوابات درج ذیل ملاحظہ ہوں!
(۱) شادی کےموقع پردلی خوشی کےاظہارکیلئےدولہا،دلہن کوتحفہ دیناتوجائزہےالبتہ بعض جگہ لفافوں کےلینےدینےکی رسم ہوتی ہےجسے”نیوتہ”کہتےہیں ،ایسی صورت میں لفافہ لینادیناناجائزہوگا۔
(۲) شادی سےپہلےرشتہ داروں کاشادی والےگھرمیں رسماًٹہرنا،خصوصاًاسکی حیثیت نہ ہونے کے باوجوداس کیلئےبوجھ بننا،اورجواس کااہتمام نہ کرےاسےبرابھلا کہناناجائزاورگناہ ہے،اس سےبچناہی چاہیے۔
(۳) شادی میں سادگی کیلئےسنت نبویہ اورسلف صالحین کونمونہ بنایاجائے،اورکم ازکم بےجاتکلفات ، ریاء ونمود،فضول خرچی اوراسراف سےبچتےہوئےاپنی حیثیت کےمطابق کسی سےقرض لئےبغیرشادی کےانتظامات کئےجائیں ۔
التخريج
(۱)شعب الإيمان – البيهقي – (5 / 254)
عن عائشة قال النبي صلى الله عليه وسلم إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤونة
الفقه الإسلامي وأدلته- وهبة الزحيلي – (9 / 241)
ولكن يسن تخفيف الصداق وعدم المغالاة في المهور، لقوله صلّى الله عليه وسلم:«إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤونة» وفي رواية «إن أعظم النساء بركة أيسرهن صداقاً» وروى أبو داود وصححه الحاكم عن عقبة بن عامر حديث: «خير الصداق أيسره». والحكمة من منع المغالاة في المهور واضحة وهي تيسير الزواج للشباب، حتى لا ينصرفوا عنه، فتقع مفاسد خلقية واجتماعية متعددة، وقد ورد في خطاب عمر السابق: «وإن الرجل ليغلي بصدقة امرأته حتى يكون لها عداوة في قلبه».
زاد المعاد في هدي خير العباد – (5 / 177)
وفى مسند الإمام أحمد: من حديث عائشة رضىَ الله عنها، عن النبىِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مَؤُونَة”……….وتضمَّن أن المُغالاة فى المهر مكروهة فى النكاح، وأنها مِن قلة بركته وعُسره.