فتویٰ نمبر:4016
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
باجی، یہ جو شادی و غیرہ کے لیے کسی سے استخارہ کرواتے ہیں، وہ دو منٹ میں حساب لگا کر بتا دیتے ہیں۔ کیا یہ صحیح رہتا ہے۔ ٹھیک رہتا ہے، آگے جا کر؟
و السلام
الجواب حامدا و مصليا
تمہید:استخارہ کا اصل مطلب ہے ‘اللہ رب العزت سے خیر کی دعا کرنا’۔ اس کا صحیح طریقہ وہی ہے جو نبی کریم ﷺ نے ہم کو سکھایا: یعنی کہ دو رکعت نفل پڑھ کر استخارہ کی دعا پڑھ کر اپنے مقصد کو سامنے رکھ کر اللہ سے دعائے خیر کی جائے۔
استخارہ کے لیے آج کل کے دور میں مختلف طریقے رائج ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ طریقہ جو نبی کریم ﷺ نے ہم کو سکھا دیا، اور جس کی تفصیل نیچے دی ہوئی ہے۔ یہ طریقہ اگرچہ طویل ہے، مگر سب سے زیادہ برکتوں کا حامل یہی ہے۔
اگر استخارہ میں فوری جواب مطلوب ہے توایسے موقع پرمختلف قرآنی اور ماثور دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں۔ یہ طریقہ بھی درست ہے اور شریعت کے اصل مآخذ یعنی قرآن اور سنت سے ثابت ہیں۔ مثال کے طور پر:
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
ترجمہ: ہمیں سیدھی (اور سچی) راه دکھا (۱)
رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں ہمارے لیے راه یابی کو آسان کردے (۲)
اللہم خر لی و اختر لی
ترجمہ: اے اللہ! میرے لیے خیر کا معاملہ فرمادیجیے اور میرے لیے درست راہ اختیار کر دیجیے۔ (۳)
اللہم الہمنی رشدی
ترجمہ: اے اللہ! میرے دل میں صحیح بات ڈال دیجیے۔ (۴)
اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کے ذریعہ بھی استخارہ کیا جا سکتا ہے، یہ طریقہ اگرچہ قرآن اور حدیث میں مذکور نہیں، مگر کیونکہ شرعی اصول کے خلاف نہیں، اس لیے اس طریقے سے استخارہ کرنا بھی جائز ہے، مگر یہاں پر احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایسا وظیفہ صرف مستند کتابوں سے اور بزرگوں کے مشورہ کے مطابق کرنا چاہیے۔
آخر الذکر وہ “استخارے” ہیں جن میں علم النجوم، علم جعفر، مختلف جنتریوں و غیرہ سے مدد لی جاتی ہے۔ یہ حقیقت میں استخارہ نہیں، بلکہ زمانہ جاہلیت میں رائج فال اور کہانت ہی ہیں، جن کے ذریعہ انسان غیب کی خبر معلوم کرنا چاہتا ہے۔ حدیث میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: “جو شخص کسی نجومی کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرے، اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوگی۔” (۵) آپ ﷺ نے مزید فرمایا: “جو شخص کسی نجومی یا کاہن کے پاس جائے اور اس کی بات کی تصدیق کرے، اس نے ان باتوں کا انکار کیا جو محمد (ﷺ) پر نازل ہوئیں۔” (۶)
جو حضرات استخارہ کے نام سے ٹی وی، فون و غیرہ پر نام یا تاریخ پیدائش کے ذریعہ “حساب لگا کر” لوگوں کو کسی کام کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں بتاتے ہیں، ان میں سے اکثریت استخارہ نہیں کرتے، بلکہ شعبدے دکھا کرلوگوں کو دھوکے میں ڈالتے ہیں اور بالفرض اگر استخارہ بھی کرتے ہوں تو بھی مسنون استخارہ نہیں اور نہ ہی اس عمل کے ذریعہ استخارہ سے وابستہ فوائد حاصل ہوں گے۔
سائلہ کے لیے ہمارا یہ مشورہ ہے یہ بچوں کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔ مناسب جگہ پر شادی کرنا ایسا معاملہ ہے جس پر صرف دو فرد کا نہیں، دو خاندانوں کا دلی سکون موقوف ہے۔ جب معاملہ اتنی اہمیت کا حامل ہے تو اس بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے بھی تھوڑا وقت نکالنا چاہیے۔ یہ کون سی عقل مندی ہے کہ اس قدر اہم بات کا فیصلہ دو تین منٹ کے اندر ایک غیر مستند عمل کے ذریعہ کیا جائے۔
ہوش مندی کا تقاضا ہے کہ جب بھی کوئی اس قدر اہم کام پیش آئے، دو کام بہت اہتمام سے کیے جائیں:
o مسنون طریقے سے استخارہ
o سمجھدار لوگوں سے مشورہ
آپ ﷺ نے فرمایا: ” جس نے استخارہ کیا وہ کبھی ناکام و نامراد نہیں ہوا،اورجس نے(کسی سمجھ دار سے) مشورہ کیاوہ کبھی پشیمان وپچھتایا نہیں اورجس نے خرچ میں میانہ روی اختیار کی وہ کبھی محتاج نہیں ہوا۔ (۷)
استخارہ انسان کو خود کرنا چاہیے۔ مگر کسی دوسرے شخص سے استخارہ کرانے کی بھی گنجائش ہے۔ استخارہ کا طریقہ یہ ہے:
(١) پہلے دو رکعت نفل پڑھے۔ ممنوع اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت پڑھے جا سکتے ہیں۔
(٢) اس کے بعددعا کے آداب کا لحاظ رکھ کر، خوب دل لگا کر استخارہ کی مسنون و مستحب دعا پڑھے اور جب “ہذا الامر” پر پہنچے تو اس کام کا جس کے لیے استخارہ کیا ہے خیا ل کرے۔ استخارہ کی دعا یہ ہے:
اللّٰہُمَّ إِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ، اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ، أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَاٰجِلِہٖ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَاٰجِلِہٖ فَاصْرِفُہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہٖ۔ (۸)
ترجمہ:- اے اللہ! میں آپ کے علم کے ذریعہ خیر کا طالب ہوں اور آپ کی قدرت سے طاقت حاصل کرنا چاہتا ہوں اور آپ کے فضلِ عظیم کا سائل ہوں، بے شک آپ قادر ہیں اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور آپ کو علم ہے کہ میں لاعلم ہوں، اور آپ چھپی ہوئی باتوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اے اللہ! اگر آپ علم کے مطابق یہ کام (یہاں اس کام کا تصور کرے) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کار کے اعتبار سے) بہتر ہے، تو اسے میرے لیے مقدر فرمائیے اور اسے میرے حق میں آسانی کرکے اس میں مجھے برکت سے نوازے اور اگر آپ کو علم ہے کہ یہ کام (یہاں کام کا تصور کرے) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کے اعتبار سے) برا ہے تو اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے ہٹادے اور جس جانب خیر ہے وہی میرے لیے مقدر فرمادے، پھر مجھے اس عمل سے راضی کردے۔
(٣) بہتر یہ ہے کہ استخارہ کی دعا سے پہلے اور بعد حمد و ثناء اور درود شریف پڑھے۔
(یہ دعا عربی میں پڑھنا بہتر ہے)
(٤) استخارہ کے بعد دل کے اطمینان کو دیکھیں،جس جانب دل کا رجحان ہے ،اسی کے موافق عمل کرنا چاہیے۔
(٥) اگر ایک دفعہ میں اطمینان نہ ہو تو سات دفعہ تک کیا جائے ان شاء اللہ تعالیٰ رجحان اور اطمینان حاصل ہو جائے گا۔ سات مرتبہ استخارہ کرنے کے بعد بھی دل کسی طرف مائل نہ ہو تو جس طرف بھی قدم اٹھائیں گے اسی میں خیر ہوگی۔
استخارہ کے بعد نہ سونا ضروری ہے اور نہ خواب دیکھنا ضروری ہے البتہ بعض لوگوں کو خواب بھی نظر آتے ہیں۔ خواب دیکھنے کی صورت میں کسی مستند عالم سے تعبیر کے لیے رجوع کرنا بہتر ہے۔
استخارے کے حوالے سے مزید پڑھیے:
“استخارہ کا مسنون طریقہ” (حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی)
“استخارہ و استشارہ کی اہمیت” (حضرت مولانا مفتی احمد ممتاز)
http://www.suffahpk.com/namaz-istikhara-ki-kefyat-or-tariqa/
• (۱) سورۃ الفاتحۃ: ۶
• (۲) سورۃ الکہف: ۱۰
• (۳) سنن الترمذی: ۳۵۱۶
• (۴) سنن الترمذی: ۳۴۸۳
• (۵)من اتى عرافا فسأله عن شىء لم تقبل له صلاة اربعين ليلة ( صحيح مسلم ، مسند احمد بن حنبل)
• (۶) من اتى عرافا او كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما انزل على محمد ( مسند احمد ، مستدرك حاكم )
• (۷) [عن أنس بن مالك:] ما خاب مَن استَخار ولا ندِم مَن استَشار ولا عال مَن اقتَصَد۔ مجمع الزوائد ٨/٩٩: [فيه] عبد السلام بن عبد القدوس وكلاهما ضعيف جدا۔ أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط (٦٦٢٧)، والقضاعي في مسند الشهاب (٧٧٤)، والديلمي في الفردوس (٦٢٣٠)
• (۸) صحیح البخاري: رقم حدیث: ۱۱۶۶؛ سنن الترمذي: رقم حدیث: ۴۰۸؛ سنن أبي داؤد: رقم حدیث: ۱۵۳۸
فقط ۔ واللہ اعلم
قمری تاریخ: ۲۲ ربیع الثانی ١٤٤٠ھ
عیسوی تاریخ: یکم جنوری ۲۰۱۹
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: