شب برات کے بارے میں استاذ محترم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا مدلل خطاب اور جناب مولانا دالور حسین کملائی زید مجدہم کا تحقیقی مضمون ایک رسالے کی شکل میں طبع ہوکر عرصہ ہوا منظر عام پر آچکا ہے جس سے ماشاء اللہ عام خاص ہر دو طبقے مستفید ہورہے ہیں زیر نظر شمارے میں وہیں سے چندا قتباسات ہدیہ قارئین ہیں۔ ( مرتب )
- شب برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام ( رضوان اللہ اجمعین ) سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی ،ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بے شک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہہ دیاکہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے لیکن حضرت محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث ہوجائے تو اس کی کمزوری دور ہوجاتی ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیاکہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے اس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بےا صل کہنا بالکل غلط ہے ۔ ( ص : 9۔ 8)
- امت مسلمہ کے جو خیر القرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور تابعین کا دور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیاجاتا رہاہے، لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں لہذا اس کو بدعت کہنا ، یا بےا صل کہنا درست نہیں صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا ، باعث اجر وثواب ہے اور اس کی خصوصی اہمیت ہے ۔ ( ص 9 )
- البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقہ سے عبادت لی جائے جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھر کر یہ کہہ دیا کہ شب برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے ، مثلا ً پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے ، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے ، بلکہ نفلی ، عبادت جس قدر ہوسکےوہ اس رات میں انجام دی جائے ، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکر کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں ۔ ( ص 10)
- اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جنت البقیع میں تشریف لےگئے ، اب چونکہ حضورﷺ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لیے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شب برات میں قبرستان جائیں لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایاکرتے تھے ، جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے ، فرماتےتھےکہ جو چیز رسول اللہﷺ سے ثابت ہواسی درجے میں اسے رکھنا چاہیے ،ا س سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے ، لہذاساری حیات طیبہ میں رسول کریم ﷺ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ شب برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے ، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لیے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلےجاؤ تو ٹھیک ہے لیکن ہر شب براء ت میں جانے کا اہتمام کرنا ،ا لتزام کرنا اور اس کو ضروری سمجھنااس کو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اورا س کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے ۔ ( ص : 10،11)
- ایک مسئلہ شب برات کے بعد والے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزے کا ہے ،ا س کو بھی سمجھ لینا چاہیے وہ یہ کہ سارے ذخیرہ حدیث میں اس روزے کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برات کے بعد ولاے دن روزہ رکھو لیکن یہ روایت ضعیف ہے لہذا اس روایت کی وجہ سے خاص پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قراردیان بعض علماء کے نزدیک درست نہیں البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے لیکن 28اور 29 شعبان کو حضور ﷺ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے کہ رمضان سے ایک دو روزپہلے روزہ مت رکھو ، تاکہ رمضان کے روزوں کے لیے انسان نشاط کے ساتھ تیار رہے ۔ ( ص 23)