دنیا کا اصول ہے کہ ایک انسان جب دوسرے انسان پر کوئی احسان کرتا ہے توا حسان مند ،محسن کا شکریہ ادا کرتا ہے اورا س کے دل میں محسن کے لیے محبت ،ہمدردی اور نیکی کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں ۔کائنات رنگ وبو میں انسان کے لیے، اس کی سب سے بڑی محسن ذات ،اللہ جل شانہ کی ہے جس کے احسانات وانعامات کی بارش انسان پر ہر پل جاری ہے۔افسوس اور تعجب کا مقام ہے کہ احسانات کا اتنا بھاری بوجھ اٹھانے کے باوجود بھی انسان اپنے مولا کا احسان مند اور شکر گزار بن کر نہیں رہتا۔’
انسان پر اللہ جل شانہ کے بے حساب احسانات میں سے ایک ” شادی ” بھی ہے ” شادی کسی انسان کی زندگی کی “بڑی خوشی “شمار ہوتی ہے ،بڑے احسان کے موقع پر چاہیے تو یہ کہ شکر گزاری بھی بڑھیا اور خوبصورت طریقے سے ہو۔لیکن اس کے برعکس یہاں ناشکری اور نافرمانی کا جس خوبی سے مظاہرہ کیاجاتا ہے ۔ اس پر جتنے آنسو بہائے جائیں کم ہیں : مثلا :
1۔مسنون طریقہ یہ ہے کہ وقت مالداری ۔حسب نسب یا خوبصورتی کو نہیں۔دین داری کو ترجیح دی جائے لیکن آج ہمارے معاشرے میں مالداری ، حسب نسب یا خوبصورتی کو دیکھ کر رشتے کیے جارہے ہیں ، دین داری کو اہمیت نہیں دی جارہی ۔
2،دلہن سے اجازت لینے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اس کا ولی اقرب یعنی ” سب سے قریبی رشتہ دار ” اس سے نکاح کی اجازت لے۔لڑکی کا سب سے قریبی رشتہ دار والد ہے۔ والد نہ ہو تو دادا قریبی رشتہ دار ہے ۔دونوں نہ ہو تو لڑکی کا بھائی اس کا قریبی رشتہ دار ہے ، بھائی نہ ہوتو بھتیجا اور یہ سب نہ ہوں تو چچا لڑکی کا قریبی رشتہ دار ہے ۔لیکن آج بے حیائی اور بے پردگی کی انتہا ہے کہ ولی اقرب کی موجودگی کے باوجود لڑکی کے “نامحرم ” کو لڑکی سےا جازت لینے کے لیے بھیجا جاتا ہے !!!
3۔حدیث نبوی ﷺ کے مطابق ” تمام نکاحوں میں سے سے بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جس میں تکلفات کم ہوں ” ( بیہقی) لیکن آج ہمارے معاشرے کا حال دیکھیے کہ تکلفات کم ہوں ” (بیہقی ) لیکن آج ہمارے معاشرے کا حال دیکھیے کہ تکلفات ،اسراف ،قرضہ جات ،جہیز کے مطالبات اور ممنوعات کے بغیر شادی کو ” شادی ” ہی نہیں سمجھاجاتا۔ اچھے خاصے دین دار لوگ بھی “شادی ” کے موقع پر بے پردگی ، مخؒوط اجتماعات ،ہندوانہ رسوم ،گانے باجے اور دیگر شرعی ممنوعات کا ارتکاب کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ فالی اللہ المشتکی ٰ
احسان کی اس ناشکری کا ثمرہ پھر یہ ثاہر ہوتا ہے کہ میاں بئیوی میں آئے روز جھگڑے ہوتے ہیں ۔ازدواجی زندگی بے سکون رہتی ہے ،طلاقیں ہوتی ہیں اور اولاد نافرمان پیدا ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ زندگی اجیرن بن کر رہ جاتی ہے ۔
آج معاشرہ کا ہر دوسرا فرد خانگی مسائل کا رونا رورہا ہے ۔لیکن
اب پچھتاوے کیا ہوت
جب چڑیا چگ گئیں کھیت