السلام علیکم
فالج اور پٹھوں کے درد علاج کے لیے ایک تیل بنایا جاتا ہے جس میں مختلف جڑی بوٹیاں اورتیل ڈالے جاتے ہیں۔ اس میں سانڈے کی چربی سے بنا ہوا تیل بھی ڈالدیا جاتا ہے سوال یہ ہے پیدا ہوا ہے کہ اگرسانڈے کو ذبح کیے بغیر اس کو مار کر یا ویسے ہی اس کو زندہ پکڑ کر اس کے پیٹ کے نچلے حصے کو چیر کر اسکی چربی نکال کر پھر اس کے پیٹ کوٹانکے لگا کر سانڈے کو چھوڑدیاجائے اور اس کی چربی کو گرم کر کے اس کا تیل بنایا جائے پھر اس تیل کو مالش کے تیل میں ڈالا جائے تووہ مالش کا تیل پاک ہوگا یا ناپاک ؟ تو مختلف کتب فقہ میں تلاش کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اگر سانڈہ ( دموی) خون والا ہے تو اس کی چربی اس کو ذبح کیے بغیر لیں تو وہ ناپاک ہوگی اوراگر وہ دموی نہیں ہےتواس کی چربی بغیر ذبح کیے بھی پاک ہوگی ۔ تو اس کے دموی ہونے کی تحقیق کے لیے مختلف کتب فقہ دیکھیں مگر ان میں اس کے دموی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کچھ نہیں ملا۔ ایک معتبر دینی ادارے اور مدرسہ کے دارالافتاء میں بیٹھنے والے مفتی صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ ( سانڈہ ) دموی نہیں ہے کیونکہ بہشتی زیور حصہ نہم کے صفحہ 104 میں مسئلہ 6 میں لکھاہے ” کیڑے مکوڑے اور خشکی کے جملہ وہ جانور جن میں دم سائل نہ ہو چھوٹا سانپ جس میں دم سائل نہ ہو خارجاً انکا استعمال ہر طرح درست ہے اور داخلاً سب حرام ہیں سوائے ٹڈی کے الخ ” انہوں نے کہا کہ جس جگہ حدیث میں چھوٹی چھپکلی کا ذکر ہے وہاں کسی شارح نے اس کے تحت سانڈے کوبھی ذکر کیاہے لہذا یہ دموی نہیں ہے نیز انہوں نے کہا کہ ہم نے خودایک مرتبہ سانڈے کو پتھروں سے مارا ہے اورا س کا خون نہیں نکلا تھا اس لیے ہمارا مشاہدہ بھی ہے کہ یہ دموی نہیں ہے لہذا مالش کا تیل مذکور ( جس میں سانڈے کا تیل ڈالدیاگیا ہے) پاک ہوگا۔
جبکہ ایک دوسرے مفتی صاحب نے کہا کہ اس حدیث کی شرح میں ابو داؤد وغیرہ میں ثواب کا ذکر ہے کہ ان کو مارنے کے ثواب میں ان چیزوں کا حکم یکساں ہے جیسے گرگٹ وغیرہ نیز سانڈہ بھی اس میں داخل ہے جبکہ وہاں سانڈے کے دموی ہونے یا نہ ہونے کا ذکر نہیں ہے ۔
ایک اور مفتی صاحب نے کہا کہ سانڈہ ضب ( گوہ) سے بڑا ہوتا ہے اور ضب ( گوہ) میں خون ہوتا ہے اور سانڈے میں بھی خون ہے اور یہ خون کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا جب انہیں بتلایا گیا کہ ایک مفتی صاحب نے کہا کہ میں نے خود پتھروں سے مارا ہے اور اس میں سے خون نہیں نکلا تو انہوں نے کہا کہ اس کا اعتبار نہیں یہ دموی ہی ہے “
آپ سے پوچھنا ہے کہ آپ اس بارے میں وجاحت فرمادیں کہ سانڈہ دموی ہے یا نہیں اورا س کو ذبح کیے بغیر اس کو مار کر یا زندہ ہونے کی حالت میں اگرا س کی چربی حاصل کرکے اس کا تیل بنایاجائے تووہ تیل پاک ہوگا یا ناپاک ؟
الجواب حامداومصلیا
- سانڈا کے دموی ہونے اور نہ ہونے سے متعلق کوئی تصریح نہیں ملیتاہم اتنی بات ضرور ہے کہ سانڈا گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جیسا کہ فیروزاللغات اردو میں لکھا ہے ( سانڈا گوہ کی قسم کا ایک جانور جس کا تیل نکال کر گھٹیا کے درد کےلیے یاطلا کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ ص 769)
لہذا گوہ کے دموی ہونے یا نہ ہونے سے متعلق جو حکم ہوگا وہی حکم سانڈا کا ہوگا اور گوہ کے بارے میں فقہاٰء کرام ؒ کا قول یہ ہے کہ گوہ ایک دموی جانور ہے اگرچہ ا س میں دم سائل یعنی بہنے والا خون نہیں ہوتا لہذا جب سانڈا گوہ کی ایک قسم ہے تووہ بھی دموی ہوگا اورا س کو غیر دموی کہنا درست نہیں ۔
اورا س کے علاوہ جو سوال میں ذکر کیاگیا ہے کہ اس کو ذبح کئے بغیر اس سے چربی نکالی جاتی ہے تو یہ اس کے ساتھ ظلم ہے ایسی صورت میں اس کو ذبح کر کے چربی حاصل کرنا چاہتے ہیں تا ہم دونوں صورتوں میں خواہ ذبح کیے بغیر اس کی چربی حاصل کر کے اس سے چربی حاصل کر کے جو تیل بنایا جاتا ہے دونوں صورتوں میں وہ تیل ناپاک ہے کیونکہ مفتی بہ قول کے مطابق غیر ماکول اللحم جانور ذبح کرنے سے صرف چمڑا پاک ہوتا ہے اس کے علاوہ اجزاء پاک نہیں ہوتے لہذا یہ تیل ناپاک ہوگا اور ناپاک تیل کے بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ تیل خارجی استعمال کےلیے علاج معالجہ کے طور پر استعمال کرنا درست ہے لیکن جسم کے جس حصے پر اس سے مالش کیاجاتاہے نماز پڑھنے کے وقت اس حصے کو دھونا ضروری ہے اس کو دھوئے بغیر نماز پڑھنا درست نہیں ہوگی ۔
بدائع الصنائع ،دارالکتب العلمیۃ۔ (36/5)
وکذلک مالیس لہ دم سائل مثل الحیۃ والوزغ وسام ابرص وسام ابرص وجمیع الحشرات وھوام الارض من الفاز والقراد والقنافذوالضب والیربوع وابن عرس ونحوھا،ولاخلاف فی حرمۃ ھذہ الاشیاء الا فی الضب فانہ حلال
البحر الرائق ،دارالکتاب الاسلامی ۔(195/8)
واما الضب والزبور والسلحفاہ والحشرات فلانھا من الخبائث الفتاویٰ الھندیہ۔(46/1)
ولحم المیتۃ وبول مالا یؤکل والروث واخثاء البقروالعدوۃ ونجو الکلب وخرء الدجاج والبسط والاوز نجسنجاسۃ غلیظۃ ھکذا فی فتاویٰ قاضی خان۔۔۔فاذا اصاب الثوب اکثر من قدر الدرھم یمنع جواز الصلاۃ کذا فی المحیط ۔
الفتاویٰ الھندیۃ (42/1)
واذا غمس الرجل یدہ فی السمن النجس او اصاب ثوبہ ثم غسل الید او الثوب بالماء من غیر حرص واثر السمن باق علی یطھر وبہ اخذ الفقیہ ابو اللیث وھو الاصح ،ھکذافی الذخیرۃ ۔
الفتاویٰ ا؛ھندیہ۔(42/1)
الدھن النجس یغسل ثلاثا بان یلقی فی الخابیہ ثم یصب فیہ مثلہ ماء ویحرک ثم یترک حتیٰ یعلوالدھن فیؤخذ او ینقب اسفل الخابیہ حتی یضرج الماء ھکذا ثلاثا فیطھ۔کذا فی الزاھدی ۔۔۔۔۔۔۔
وغسل عضو فی اوان وغسل جنب لم یستنج فی آبار کالثوب ویتجنس الماء ولاوانی والماء الرابع فی الثوب لا العضو،لانہ اقیم بہ قربۃ۔کذا فی الکافی والمیاہ الثلاثۃ نجسۃ متفاوتۃ فالاول اذااصاب شیئا یطھر بالثلاث والثانی بالمثنی والثالث بالواحد۔کذا فی محیط السرخسی وھو الصحیح۔
2 ٹائنز کمپنی کے کاروبار اور طریقہ کار سے متعلق منسلکہ فتویٰ نمبر (7/1115) ملاحظہ فرمائیں ۔واللہ سبحانہ وتعالیٰ