السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
سوال: میرا یہ سوال ہے کہ پازیب عورت کے زیور میں داخل ہے؟ اس کو پہن سکتے ہیں اور یہ بات سچ ہے پازیب یا پائل صحابیات سے بھی ثابت ہے یا نہیں؟ جنگ میں پٹی کے لیے عورتیں جاتی تو ان کے پازیب پہنی ہوتی تھی یا نہیں؟
حدیث کی روشنی میں بات واضح کردیں ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب باسم ملھم الصواب
جی ہاں ! پازیب زیور میں داخل ہے اور اس کے پہننے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر بجنے والا نہ ہو تو محرم کے سامنے پہننا جائز ہے ورنہ ناجائز ۔ بعض صحابیات سے اس کا پہننا ثابت ہے اور جنگ کے دوران بعض صحابیات سے جو اس کے پہننے کا ثبوت ملتا ہے علماء نے اس سے فرمایا ہے کہ شاید وہ نزولِ حجاب سے پہلے کا واقعہ ہے۔
_______________
حوالہ جات :
1: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو وَهُوَ أَبُو مَعْمَرٍ الْمِنْقَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ انْهَزَمَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو طَلْحَةَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُجَوِّبٌ عَلَيْهِ بِحَجَفَةٍ»، قَالَ: «وَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ رَجُلًا رَامِيًا، شَدِيدَ النَّزْعِ، وَكَسَرَ يَوْمَئِذٍ قَوْسَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا»، قَالَ: فَكَانَ الرَّجُلُ يَمُرُّ مَعَهُ الْجَعْبَةُ مِنَ النَّبْلِ، فَيَقُولُ: انْثُرْهَا لِأَبِي طَلْحَةَ ، قَالَ: وَيُشْرِفُ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَى الْقَوْمِ، فَيَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، لَا تُشْرِفْ، لَا يُصِبْكَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ الْقَوْمِ، نَحْرِي دُونَ نَحْرِكَ ، قَالَ: «وَلَقَدْ رَأَيْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، وَأُمَّ سُلَيْمٍ وَإِنَّهُمَا لَمُشَمِّرَتَانِ، أَرَى خَدَمَ سُوقِهِمَا، تَنْقُلَانِ الْقِرَبَ عَلَى مُتُونِهِمَا، ثُمَّ تُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِهِمْ، ثُمَّ تَرْجِعَانِ فَتَمْلَآَنِهَا، ثُمَّ تَجِيئَانِ تُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِ الْقَوْمِ، وَلَقَدْ وَقَعَ السَّيْفُ مِنْ يَدَيْ أَبِي طَلْحَةَ إِمَّا مَرَّتَيْنِ وَإِمَّا ثَلَاثًا مِنَ النُّعَاسِ
(صحیح مسلم: 4683)
ترجمہ :
عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : جب احد کا دن تھا ، لوگوں میں سے کچھ لوگ نبی ﷺ کو چھوڑ کر پسپا ہو گئے اور حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے سامنے ایک ڈھال کے ساتھ آڑ کیے ہوئے تھے ۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ انتہائی قوت سے تیر چلانے والے تیر انداز تھے ، انہوں نے اس دن دو یا تین کمانیں توڑیں ۔ کہا : کوئی شخص اپنے ساتھ تیروں کا ترکش لیے ہوئے گزرتا تو آپ ﷺ فرماتے :’’ اسے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے آگے پھیلا دو ۔‘‘ کہا : اللہ کے نبی ﷺ لوگوں کا جائزہ لینے کے لیے جھانک کر دیکھتے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے : اللہ کے نبی ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ! جھانک کر نہ دیکھیں ، کہیں دشمن کے تیروں میں سے کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے ۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے آگے ڈھال بنا ہوا ہے ۔ کہا : میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دیکھا ، ان دونوں نے اپنے کپڑے سمیٹے ہوئے تھے ، میں ان کی پنڈلیوں کے پازیب دیکھ رہا تھا ، وہ اپنی کمر پر مشکیزے لے کر آتی تھیں ، ( زخمیوں کو پانی پلاتے پلاتے ) ان کے منہ میں ان ( مشکوں ) کو خالی کرتیں تھیں ، پھر واپس ہو کر انہیں بھرتی تھیں ، پھر آتیں اور انہیں لوگوں کے منہ میں فارغ کرتی تھیں ۔ اس دن اونگھ ( جانے ) کی بنا پر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے دو یا تین مرتبہ تلوار گری ۔ ( شدید تکان اور بے خوابی کے عالم میں بھی وہ ڈھال بن کر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے رہے ۔ )
2: وَعَنْ بُنَانَةَ مَوْلَاةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَيَّانَ الْأنْصَارِيّ كانتْ عندَ عائشةَ إِذْ دُخِلَتْ عَلَيْهَا بِجَارِيَةٍ وَعَلَيْهَا جَلَاجِلُ يُصَوِّتْنَ فَقَالَتْ: لَا تُدْخِلُنَّهَا عَلَيَّ إِلَّا أَنْ تُقَطِّعُنَّ جَلَاجِلَهَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ أَجْرَاس
ترجمہ :حضرت عبدالرحمن بن حیان انصاری ؓ کی آزاد کردہ لونڈی بنانہ ، عائشہ ؓ کے پاس موجود تھی ، اچانک کوئی بچی ان کے پاس لائی گئی اس نے گھنگھرو پہن رکھے تھے جن سے آواز آ رہی تھی ، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : اسے میرے پاس اس وقت تک مت آنے دینا جب تک تم اس کے گھنگھرو نہیں کاٹ دیتے کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جس گھر میں گھنٹی ہو اس میں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔‘‘ ۔
( مشکوٰة المصابیح : 4399 )
3: وقوله : «خدم سوقهما بفتح الخاء المعجمة والدال المهملة وهي الخلاخيل، وهذه كانت قبل الحجاب، ويحتمل أنها كانت عن غير قصد للنظر
(فتح الباري: كتاب الجهاد والسير: باب : غزو النساء وقتالهن مع الرجال الرقم: 2880 7/158)
4 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پازیب دیکھنے کا واقعہ جنگ احد کا ہے، اس وقت تک حجاب کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے، اس لیے عورتوں کو دیکھنا حرام نہیں تھا۔ نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص تھے، آپ کے گھر آمد و رفت ہر وقت رہتی تھی اور ام سلیم رضی اللہ عنہا ان کی والدہ تھیں، اس لیے انہیں ان پر نظر جمانے کی ضرورت نہ تھی ، اچانک ان کے ہازیب پر نظر پڑ گئی، علاوہ ازیں حالت امن کو حالت جنگ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا-
(شرح صحیح مسلم از مولانا عبد العزیز علوی حفظہ اللہ 5/635)
5 : زیور کی حقیقت کیا ہے ؟ صرف یہ کہ بدن کی زینت کے لئے کسی حصہ بدن پر کوئی عمدہ اور خوبصورت چیز استعمال کی جائے –
(كفاية المفتى: 9/182)
6: حدیث صراحۃ اس پر دال ہے کہ جن زیوروں میں خود باجاٍٍہے اس کا پہننا بڑی عورت اور بچی سب کو نا جائز ہے اور آیت بعد تامل اس پر دال ہے کہ جن زیوروں میں خود باجہ نہ ہو مگر دوسرے زیوروں سے لگ کر بجتے ہوں انکا پہننا درست ہے مگر انکو بھی پہن کر ایسی طرح چلنا کہ لگ کر آواز دیں یہ درست نہیں ۔
(امداد الفتاوی: 4/137)
واللہ اعلم بالصواب
1 شعبان 1445
12 فروری 2024