حالات میں انقلاب
ادھر”حضرت مسلم بن عقیل” کے خط لکھنے کے بعد” بحکمِ قضاء و قدر” اس طرف حالات بدلنا شروع ہو گئے-“نعمان بن بشیر”کوفہ” کا حاکم تھا اس کو جب یہ اطلاع ملی کہ”مسلم بن عقیل” “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے لئے”بیعتِ خلافت”لے رہے ہیں تو لوگوں کو جمع کر کے خطبہ دیا جس میں کہا٫
“ہم کسی سے لڑنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی محض شبہ اورتہمت پر کسی کو پکڑتے ہیں٫لیکن اگر تم نے سرکشی اختیار کی اور اپنے امام”یزید” کی بیعت توڑی تو “قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں” کہ میں تلوار سے تم لوگوں کو سیدھا کر دوں گا٫جب تک تلوار کا دستہ میرے ہاتھ میں قائم رہےگا-( کامل ابن اثیر٫ص9٫ج4)
“عبداللہ بن مسلم بن سعید حضرمی٫جو بنی امیہ کا”حلیف تھا٫یہ خطبہ سن کر کھڑا ہوا اور بولا”جو حالات آپ کے سامنے ہیں ان کی اصلاح بغیر تشدد کے نہیں ہوسکتی اور جو رائے آپ نے اختیار کی ہے یہ کمزور اور بزدلوں کی رائے ہے-
“نعمان بن بشیر”نے جواب دیا کہ
“میں” اللہ تعالیٰ” کی” اطاعت میں کمزور اور بزدل سمجھا جاؤں یہ میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ”اس کی”معصیت” میں دلیر اور بہادر کہلاؤں٫”(ابنِ اثیر)
یہ دیکھ کر”عبداللہ بن مسلم”نے براہ راست ایک خط “یزید “کو بھیج دیا جس میں “مسلم بن عقیل” کے آنے”اور حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”کے لئے بیعت لینے کا واقعہ ذکر کرکے لکھا کہ”
اگراپ کو کوفہ کی کچھ ضرورت ہے اور اس کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہوتو یہاں کسی قوی آدمی کو فوراً بھیجئے جو آپ کے احکامات کو قوت کے ساتھ نافذ کر سکے٫ موجودہ حاکم” نعمان بن بشیر”یا تو کمزور ہیں یا قصداً کمزوری کا معاملہ کر رہے ہیں-
اس کے ساتھ ہی” یزید” کو دوسرے لوگوں نے بھی اسی مضمون کے خطوط لکھے-
“یزید”کے پاس یہ خطوط پہنچےاس نے اپنے والد کے مشیر خاص”سرجون” کو بلا کر مشورہ کیا کہ “کوفہ” کی حکومت کس کے سپرد کرے-؟ اس نے رائے دی کہ”عبیداللہ بن زیاد”کو کوفہ کا عامل بنایا جائے-
لیکن”یزید”کے تعلقات”اس کے”ساتھ اچھے نہ تھے-
اس لئے”سرجون”نے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں کہ اگر آج “آپ کے والد”حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ”زندہ ہو جائیں اور “آپ کو”کوئ مشورہ دیں تو وہ آپ”قبول کریں گیں؟
“یزید”نے کہا “بےشک٫
اس وقت سرجون نے “امیر المومنین رضی اللّٰہ عنہ”کا ایک فرمان نکالا جس میں کوفہ کی امارت پر”عبید اللہ بن زیاد”کو مقرر کیا گیا تھا-
“کوفہ پر”ابن زیاد”کا تقرر”
“یزید نے اس کے مشورے کو قبول کر کے”ابن زیاد”کو “کوفہ اور بصرہ” کا حاکم مقرر کیا اور اس کو ایک خط لکھا کہ”فوراً “کوفہ”پہنچ کر”مسلم بن عقیل کو گرفتارکر کے قتل کردے٫یا”کوفہ”سے نکال دے-“ابن زیاد”کو یہ خط ملا تو فوراً”کوفہ”جانے کا عزم کرلیا-
“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”کا خط اہل بصرہ کے نام”
ادھر ایک واقعہ پیش آیا کہ ” حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”کا ایک خط “اہل بصرہ” کے نام پہ پہنچا٫جس کا مضمون یہ تھا کہ”آپ لوگ”دیکھ رہے ہیں کہ”میرے نانا جان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی “سنتیں” مٹ رہی ہیں اور”بدعات” پھیلائی جا رہی ہیں٫میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ “کتاب اللہ اور سنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی حفاظت کرو اور اس کے احکام کی تنفیذ کے لئے کوشش کرو-
(کامل ابن اثیر)
یہ خط خفیہ بھیجا گیا تھا٫اور تو سب نے اس خط کو راز میں رکھا لیکن” منزر بن جارود”کو خیال ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خط لانے والا”ابن زیاد کا جاسوس” ہو اس لئے اس نے یہ خط” ابن زیاد” کو پہنچا دیا٫ابن زیاد” نے اس “قاصد” کو قتل کر ڈالا اور اس کے بعد”اہل بصرہ”کو جمع کر کے خطبہ دیا جس میں کہا کہ”جو شخص میری مخالفت کرے میں اس کے لئے”عذاب الیم”ہوں اور جو موافقت کرے اس کے لئے راحت ہوں-مجھے “امیر المومنین” نے کوفہ جانے کا حکم دیا ہے٫ میں اپنے بھائی” عثمان بن زیاد کو”بصرہ”میں اپنا”قائم مقام بنا کر صبح”کوفہ”جا رہا ہوں- میں تمہیں متنبہ, کرتا ہوں کہ”اس”کے حکم کی مخالفت کا دھیان بھی دل میں نہ لانا- اگر مجھے کسی بھی شخص کے متعلق”خلاف” کی خبر ملی تو میں اس کو بھی قتل کردونگا٫اس کے ولی کو٫اس کے خاندان کے ردیف( سربراہ) کو بھی- تم جانتے ہوکہ میں” ابن زیاد” ہوں-(ابن اثیر)
“کوفہ” کے لوگ”حسین رضی اللّٰہ عنہ”کی آمد کے منتظر تھے٫جب ابنِ زیاد”اپنے ساتھ”مسلم باہلی٫اور شریک بن عور”کو لےکر”کوفہ”پہنچا تو ان لوگوں نے سمجھا کہ یہی”حسین رضی اللّٰہ عنہ” ہیں-
وہ جس مجلس سے گزرتا سب” مرحبا یا ابن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”
کہ کر اس کا استقبال کرتے-“ابنِ زیاد”یہ منظر خاموشی سے دیکھتا رہا اور دل میں کڑھتا رہا کہ “کوفہ” پر تو”حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”کا پورا تسلط ہو چکا ہے-
اب پورے شہر “کوفہ” میں” حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے آنے کی خبر مشہور ہو گئ تھی٫لوگ جوق در جوق زیارت کے لئے آنے لگے-ادھر”نعمان بشیر” “والیء کوفہ”کو یہ خبر پہنچی تو باوجود”یزید”کا ملازم ہونے کے”اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم”کا احترام دل میں رکھتے تھے٫اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے بیٹھ گئے٫ابن زیاد انکے دروازے پر پہنچا٫لوگوں کا ایک ہجوم اس کو “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” سمجھ کرساتھ تھا٫ جن کا شورو شغب اور ہنگامہ “نعمان ابن بشیر” نے اندر سے سنا تو وہیں سے آواز دی کہ”جو امانت (یعنی ولایتِ کوفہ) میرے سپرد ہے وہ میں “آپ رضی اللّٰہ عنہ” کے حوالے نہ کرونگا٫اس کے علاؤہ میں “آپ”سے لڑنا نہیں چاہتا-
“ابن زیاد” خاموشی سے یہ سب مظاہرے اور “والیء کوفہ” کا معاملہ دیکھ رہا تھا٫ اب اسی نے دروازے کے قریب پہنچ کر “نعمان بن بشیر”کو آواز دی کہ “دروازہ کھولو میں “ابن زیاد”ہوں٫یزید”کی طرف سے معمور ہو کر آیا ہوں-اسی وقت دروازہ کھلا اور”ابن زیاد” کے اندر جانے کے بعد پھر بند کر دیا گیا-
(جاری ہے)
حوالہ: شہید کربلا-
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان-
“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین-“